• صارفین کی تعداد :
  • 4400
  • 8/19/2008
  • تاريخ :

افریقہ کی مساجد (1)

جامع القیروان الاکبر

جامع القیروان الاکبر

جامع القیروان الاکبر

جامع القیروان الاکبر (عربی : جامع القيروان الأكبر ) تیونس کی قدیم اور اہم مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے جامع عقبہ بن نافع (عربی : جامع عقبة بن نافع ) بھی کہتے ہیں۔ کیونکہ اسے عقبہ بن نافع نے 670ء (50ھ) بنایا تھا جب قیروان شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ قیروان اب تیونس کا ایک مشہور شہر ہے۔

جامع القیروان الاکبر

اس مسجد کا رقبہ 900 مربع میٹر ہے اور اس کا طرزِ تعمیر بعد میں المغرب (تیونس، مراکش وغیرہ) اور ہسپانیہ میں مزید مساجد (مثلاً جامعہ قرویین اور مسجد قرطبہ) میں استعمال کیا گیا۔ ایک زمانے میں اس مسجد کو ایک جامعہ (یونیورسٹی) کا درجہ حاصل تھا کیونکہ یہاں دینی اور دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی اور اس مسجد میں مذہبی اور دیگر دانشور اکٹھا ہوتے تھے

جامع القیروان الاکبر

مگر بعد میں دانشوران اس کی جگہ جامعہ زیتونیہ (زیتونیہ یونیورسٹی) چلے گئے جو 737ء میں قائم ہوئی تھی اور آج بھی قائم ہے۔

 

مسجد جینے

مسجد جینے

مسجد جینے (انگریزی: Great Mosque of Djenné) کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے اور سوڈانی-ساحلی طرزِ تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ یہ مسجد مالی کے شہر جینے میں قائم ہے۔ اس مقام پر پہلی مسجد 13 ویں صدی میں قائم کی گئی تھی۔ جبکہ موجودہ تعمیر 1907ء سے موجود ہے۔ اسے افریقہ کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ 1988ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے مسجد اور شہر کے قدیم حصے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

 

حسن ثانی مسجد

مسجد حسن ثانی

مقام کاسابلانکا، مراکش

معلوماتِ طرزِ تعمیر

ماہر تعمیرات مائیکل پنیسو

رخ بجانب قبلہ

سالِ تکمیل 30 اگست 1993ء

تعمیری لاگت 800 ملین امریکی ڈالر

خصوصیات

گنجائش ایک لاکھ سے زائد

تعدادِ مینار ایک

بلندئ مینار 210 میٹر

منفرد طرز تعمیر کی حامل مسجد حسن الثانی مراکش کے شہر کاسابلانکا میں واقع ہے۔ اس مسجد کا ڈیزائن فرانسیسی ماہر تعمیرات مائیکل پنیسو نے تیار کیا۔ اس نے مسجد کے ڈیزائن کی تیاری میں اسلامی فن تعمیر سے مدد لی۔ مسجد میں ایک لاکھ سے زائد نمازیوں کی گنجائش ہے۔

یہ مسجد الحرام کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے۔ اس کی تعمیر پر 80 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی۔ اس مسجد کا مینار دنیا کا سب سے بلند مینار ہے جس کی بلندی 210 میٹر(689 فٹ) ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اس کا نصف حصہ سمندر سے حاصل کی گئی زمین پر اور نصف حصہ بحر اوقیانوس کی سطح پر ہے۔ اس کے فرش کا ایک حصہ شیشے کا ہے جہاں سے سمندر کا پانی دکھائی دیتا ہے۔

اسلامی فن تعمیر کے ساتھ ساتھ یہ مسجد کئی جدید سہولیات سے بھی مزین ہے جن میں زلزلے سے محفوظ ہونا، سردیوں میں فرش کا گرم ہونا، برقی دروازے اور ضرورت کے مطابق کھولنے یا بند کرنے کے قابل چھت شامل ہیں۔

اس کا طرز تعمیر اسپین میں قائم الحمرا اور مسجد قرطبہ سے ملتا جلتا لگتا ہے۔ مسجد کے مینار سے سبز رنگ کی شعاع کا اخراج ہوتا ہے اور یہ شعاع نہایت دور سے دیکھی جا سکتی ہے اور اس سے شہر کے رہنے والوں کو قبلے کی سمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

مسجد کے تعمیراتی کام کا آغاز 12 جولائی 1986ء کو کیا گیا اور افتتاح سابق شاہِ مراکش حسن ثانی کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر 1989ء میں کیا جانا تھا لیکن مسجد کے تعمیراتی کام میں تاخیر کے باعث اس کا افتتاح 30 اگست 1993ء کو ہوا۔ مسجد کی تعمیر میں مراکش بھر کے 6 ہزار ماہرین نے 5 سال تک محنت کی۔

 

مسجد شنقیط

 

مسجد شنقیط اسلامی جمہوریہ موریتانیا جسے مسجد جمعہ بھی کہا جاتا ہے موریتانیا کی قدیم مساجد میں سے ایک ہے جسے موریتانیا کے علاقے آدرار کے ایک ضلع شنقیط (فرانسیسی میں Chinguetti) میں اواسس شہر کی بنیاد رکھنے والوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس مسجد کی تعمیر بارہویں یا تیرہویں صدی عیسوی میں ہوئی۔ اس کا مینار دنیا میں مساجد کا مسلسل استعمال ہونے والا دوسرا قدیم ترین مینار سمجھا جاتا ہے۔ مینار مربع شکل کا ہے اور سادہ طریقہ سے بنا ہوا ہے۔ مینار تعمیر کرنے والے مالکی مسلک سے تعلق رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے مینار اپنے مسلک کے مطابق سادہ ترین طریقہ سے بنایا تھا۔ اس مینار کو اسلامی جمہوریہ موریتانیا کا اہم قومی نشان سمجھا جاتا ہے۔ یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ میں بھی شامل کیا ہوا ہے۔ یونیسکو نے 1970ء میں اس کی کچھ بحالی کی تھی مگر مجموعی طور پر مسجد اور یہ مینار ریت کے طوفانوں سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔