• صارفین کی تعداد :
  • 1854
  • 10/4/2008
  • تاريخ :

ہند امریکہ معاہدہ یا ایٹمی ڈیل ؟

ہند امریکہ معاہدہ یا ایٹمی ڈیل

  ہندوستان اور امریکہ کے درمیان 123 سے موسوم ایٹمی معاہدے کی امریکی ایوان نمائندگان سے منظوری کے بعد اب صرف ایک مرحلہ باقی بچا ہے اور وہ ہے سینٹ سے اس معاہدے کی منظوری کہ جس میں اب بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی ہے ۔ جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی وزير اعظم منموہن سنگھ نے امریکی ایوان نمائندگان سے ایٹمی معاہدے کی منظوری کو سراہا ہے اور اسے انتہائی اہمیت کا حامل اقدام قرار دیا ہے تاہم امریکہ کے ساتھ اس ایٹمی معاہدے کے مخالف ہندوستانی حلقے، جو اسے ایٹمی ڈیل سے تعبیر کر رہے ہیں ،یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ کرکے ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی کو داؤ پر لگا دیا گيا ہے ۔

 

  امریکہ کے ساتھ طے پانے والے اس معاہدے کے نقائص اور فوائد پر بحث میں پڑے بغیر ایک اہم نکتہ جو بلا شبہ من موہن سنگھ کی حکومت نے اپنے پیش نظر رکھا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی جیسے عالمی معاہدوں کی پابندی کئے بغیر ہی، امریکہ اس کے ساتھ 123 معاہدہ کرنے پر رضا مند ہو گیا ہے اور مسٹر من موہن سنگھ اسے اپنی ایک بڑی فتح سمجھتے ہیں اور اسی زاویئے سے وہ اس معاہدے کا دفاع کر رہے ہیں ۔عالمی قوانین کے تحت اس طرح کا کوئی معاہدہ کسی بھی ایسے ملک کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جس نے این پی ٹی اور سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہیں کئے ہیں تاہم امریکہ نے ان قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ 123 معاہدہ کرکے نہ صرف یہ کہ عالمی اداروں کو کمزور اور ناتواں بنا دیا ہے بلکہ قدس کی غاصب حکومت کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے ۔

 

  ہندوستان جیسی ایٹمی ایندھن کی بڑی منڈی سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ جو دوسرا بڑا مقصد امریکہ کے پیش نظر ہے وہ اسرائیل کو گوشہ تنہائی سے نکالنا ہے ۔

 

  ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ ساٹھ برسوں تک خفیہ تعلقات رہے ہیں اور سن 1990 میں ان تعلقات کو پہلی مرتبہ عیاں کیا گيا جس کے بعد سے ان تعلقات میں مسلسل فروغ آ رہا ہے اور حتی فوجی اور انتہائي حساس نوعیت کے معاملات میں بھی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوششیں پاکستان کی طرف سے بھی کی جاتی رہی ہیں تاہم اس سلسلہ میں سب بڑا قدم پرویز مشرف کی حکومت میں اٹھایا گیا اور پاکستان کے اس وقت وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ترکی جا کر اسرائیل کے وزیر خارجہ سے باضابطہ ملاقات کی جس کا پاکستانی حکومت اور حکومت سے وابستہ ذرائع ابلاغ اور سیاستدانوں نے بھر پور دفاع کیا تاہم فلسطین میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک حماس کی کامیابی کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی پرویز مشرف کی کوششیں بظاہر دم توڑ گئیں ۔

 

   بہرحال اس وقت امریکہ ، ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ایک طرف تو چین اور روس کے مقابلے میں اپنے لئے سودمند سمجھتا ہے اور دوسری طرف اس کو اپنے کنٹرول میں بھی رکھنا چاہتا ہے ۔ چنانچہ ایٹمی ڈیل کے مخالف ہندوستان کے سیاسی حلقے اور بائیں بازو کی جماعتیں اسی زاویئے سے اس معاہدے کو دیکھ رہی ہیں اور انکا یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ اس معاہدے سے ہندوستان کی آزادی خارجہ پالیسی تو متاثر ہوگی ایٹمی خودمختاری کو بھی نقصان پہنچے گا ۔

 

   جبکہ مشرق وسطی اور عالم اسلام کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین اس معاہدے کو دو سو سے زائد ایٹمی وار ہڈز کی حامل قدس کی غاصب، صیہونی حکومت کو علاقے میں بحیثیت ایک ایٹمی طاقت کے منوانے کے لئے امریکی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ 123 سے موسوم ایٹمی معاہدہ امریکہ نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے جس کا اندازہ حکومت ہندوستان کو آگے چل کر ہو گا ۔ 

                                                 اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

 سانحہ دوجولائی ایران

پاکستان میں نئی امریکی سفارت کاری ۔ ایک خطرناک کھیل