• صارفین کی تعداد :
  • 6632
  • 11/23/2008
  • تاريخ :

ام الفضل کی رخصتی ، امام محمد تقی علیہ السلام کی مدینہ کو واپسی اور حضرت کے اخلاق واوصاف عادات وخصائل

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

   اس شادی کا پس منظرجو بھی ہو ،لیکن مامون نے نہایت اچھوتے انداز سے اپنی لخت جگرام الفضل کوحضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے حبالہ نکاح میں دیدیا تقریبا ایک سال تک امام علیہ السلام بغداد میں مقیم رہے، مامون نے دوران قیام بغداد میں آپ کی عزت وتوقیرمیں کوئی کمی نہیں کی ”الی ان توجہ بزوجتہ ام الفضل الی المدینة المشرفة“۔ یہاں تک آپ اپنی زوجہ ام الفضل سمیت مدینہ مشرفہ تشریف لے آئے (نورالابصارص ۱۴۶) ۔

مامون نے بہت ہی انتظام واہتمام کے ساتھ ام الفضل کوحضرت کے ساتھ رخصت کردیا۔

 

  علامہ شیخ مفید، علامہ طبرسی، علامہ شبلنجی، علامہ جامی علیہم ا لرحمة تحریرفرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام اپنی اہلیہ کولئے ہوئے مدینہ تشریف لے جا رہے تھے، آپ کے ہمراہ بہت سے حضرات بھی تھے چلتے چلتے شام کے وقت آپ وارد کوفہ ہوئے وہاں پہنچ کرآپ نے جناب مسیب کے مکان پرقیام فرمایااورنمازمغرب پڑھنے کے لیے وہاں کی ایک نہایت ہی قدیم مسجد میں تشریف لے گئے آپ نے وضو کے لیے پانی طلب فرمایا، پانی آنے پرایک ایسے درخت کے تھالے میں وضوکرنے لگے جو بالکل خشک تھا اورمدتوں سے سرسبزی اورشادابی سے محروم تھا امام علیہ السلام نے اس جگہ وضوکیا، پھرآپ نمازمغرب پڑھ کروہاں سے واپس ہوئے اوراپنے پروگرام کے مطابق وہاں سے روانہ ہوگئے۔

 

امام علیہ السلام توتشریف لے گئے لیکن ایک عظیم نشانی چھوڑگئے اوروہ یہ تھی کہ جس خشک درخت کے تھالے میں آپ نے وضوفرمایا تھا وہ سرسبزوشاداب ہو گیا، اور رات بھرمیں ہی وہ تیارپھلوں سے لد گیا لوگوں نے اسے دیکھ کر بے انتہا تعجب کیا(ارشادص ۴۷۹ ، اعلام الوری ص ۲۰۵ ، نورالابصارص ۱۴۷ ، شواہداالنبوت ص ۲۰۵) ۔

 

  کوفہ سے روانہ ہو کرطے مراحل وقطع منازل کرتے ہوئے آپ مدینہ منورہ پہنچے وہاں پہنچ کرآپ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں منہمک ومشغول ہوگئے پندونصائح،تبلیغ وہدایت کے علاوہ آپ نے اخلاق کاعملی درس شروع کردیا ۔ خاندانی طرہ امتیازکے بموجب ہرایک سے جھک کرملنا ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اورسادگی کوہرحال میں پیش نظررکھنا، غرباء کی پوشیدہ طورپرخبرلینا، دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا مہمانوں کی خاطرداری میں انہماک اورعلمی ومذہبی پیاسوں کے لیے فیض کے چشموں کوجاری رکھنا ،آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلوتھا اہل دنیا جوآپ کی بلندی نفس کا پورااندازہ نہ رکھتے تھے انہیں یہ تصورضروری ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کاعظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہو جانا یقینا اس کے چال ڈھال ،طورطریقے کوبدل دے گا اوراس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہوسکتا ہے جومامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کو آل رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا، جتنا ان کی صفات سے تھا وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اورمعراج انسانیت کا وہ مرکزجو مدینہ منورہ میں قائم ہے اورجوسلطنت کے مادی اقتدارکے مقابلہ میں ایک مثالی روحانیت کا مرکزبنا ہوا ہے، یہ کسی طرح ٹوٹ جائے اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے ۔

امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرنا،اسی کی ایک شکل تھی اورپھرامام رضا کو ولی کوعہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ تھا فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازمعاندانہ اوردوسرے کا طریقہ ارادت مندی کے روپ میں تھا، مگراصل حقیقت دونوں صورتوں کی ایک تھی ،جس طرح امام حسین نے بیعت نہ کی، تو وہ شہید کرڈالے گئے، اسی طرح امام رضاعلیہ السلام ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چلے تو آپ کوزہرکے ذریعہ سے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا۔

 

اب مامون کے نقطہ نظرسے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا کا جانشین ایک آٹھ، نو،برس کا بچہ ہے، جوتین چاربرس پہلے ہی باپ سے چھڑا لیا جا چکا تھا حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچہ کواپنے طریقے پرلانا نہایت آسان ہے اوراس کے بعد وہ مرکزجوحکومت وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگرانتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔

 

  مامون رشیدعباسی، امام رضاعلیہ السلام کے ولی عہدی کی مہم میں اپنی ناکامی کومایوسی کا سبب نہیں تصورکرتا تھا اس لیے کہ امام رضا کی زندگی ایک اصول پرقائم رہ چکی تھی، اس میں تبدیلی نہیں ہوئی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی جو آ ٹھ ،نوبرس کے سن سے قصرحکومت میں نشوونما پا کربڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پربرقرارہیں۔

 

  سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کوجانتے تھے اس وقت کا ہرشخص یقینا مامون ہی کا ہم خیال ہوگا، مگرحکومت کوحیرت ہوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ نوبرس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمرمیں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اوراصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکارکردیتا ہے ،اوراس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا ہے توایک علیحدہ مکان کرایہ پرلے کر اس میں قیام فرماتے ہیں اس سے بھی امام کی مستحکم قوت ارادی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے عموما مالی اعتبارسے لڑکی والے جو کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے اس گھرمیں نہ سہی تو کم ازکم اسی شہرمیں اس کا قیام رہے، مگرامام محمد تقی نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کوحجازواپس جانے کی اجازت پرمجبورکردیا یقینا یہ امرایک چاہنے والے باپ اورمامون ایسے باقتدارکے لیے انتہائی ناگوارتھا مگراسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اورامام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے۔

امام محمد تقی علیہ السلام کا روضہ منور

  مدینہ تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی عالم رہا جواس کے پہلے تھا ،نہ پہرہ دارنہ کوئی خاص روک ٹوک، نہ تزک واحتشام نہ اوقات ملاقات، نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤ میں کوئی تفریق زیادہ ترنشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرت کے وعظ ونصحیت سے فائدہ اٹھاتے تھے راویان حدیث، اخبار واحادیث دریافت کرتے تھے طالب علم مسائل پوچھتے تھے ،صاف ظاہر تھا کہ جعفرصادق ہی کا جانشین اورامام رضا کافر زند ہے جواسی مسندعلم پربیٹھا ہوا ہدایت کا کام انجام دے رہا ہے۔

 

  امورخانہ داری اور ازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے اپنی بیویوں کوجن حدود میں رکھا ہوا تھا انہیں حدود میں آپ نے ام الفضل کوبھی رکھا، آپ نے اس کی مطلق پرواہ نہ کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہے چنانچہ ام الفضل کے ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عماریاسرکی نسل سے ایک محترم خاتون کےساتھ عقد بھی فرمایا اورقدرت کو نسل امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظورتھی ،یہی امام علی نقی کی ماں ہوئیں ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کربھیجی، مامون کے دل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا، مگراسے اب اپنے کئے کونباہنا تھا اس نے ام الفضل کوجواب میں لکھا کہ میں نے تمہارا عقد ابوجعفرکے ساتھ اس لیے نہیں کیا کہ ان پرکسی حلال خدا کو حرام کردوں خبردار! مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔

 

یہ جواب دے کرحقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے ہمارے سامنے اس کی نظریں موجود ہیں کہ اگرمذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا،جیسے پیغمبراسلام کے لیے جناب خدیجة اورحضرت علی المرتضی کےلیے جناب فاطمة الزہراء ، مگرشہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیازدینا صرف اس لیے کہ وہ ایک بادشاہ کی بیٹی ہے اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لیے امام محمد تقی علیہ السلام نے اس کے خلاف طرزعمل اختیارکرنا اپنا فریضہ سمجھا

 (سوانح امام  محمدتقی جلد ۲ ص ۱۱) ۔

shahroudi.net