• صارفین کی تعداد :
  • 2157
  • 12/16/2008
  • تاريخ :

جوتا پریڈ

جوتا پریڈ

دنیا کے مسلمان حکمرانوں کے محبوب امریکی صدر جناب جارج بش کے ساتھ عراقی صحافی منتظر الزیدی نے کچھ اچھی نہیں کی، جنابِ بش طویل سفر طے کرکے عراق کے ان عوام سے الوداعی ملاقات کے لئے آئے تھے جو امریکہ کی تمام تر کوشش کے باوجود امریکی بمباری میں ہلاک ہونے سے بچ گئے تھے، حکمران جب حکمرانوں سے ملتے ہیں تو ان کی اس ملاقات کو عوام سے ملاقات ہی کا نام دیا جاتا ہے چنانچہ جب وہ ”عراقی عوام“ یعنی عراقی وزیراعظم سے ہاتھ ملا رہے تھے تو ایک جوتا ہوا میں تیرتا ہوا جناب بش کی کھوپڑی کی طرف آتا دکھائی دیا جو جنابِ بش کے فوری طور پر جھک جانے کی وجہ سے ان کے سر کے لمس سے محروم رہا۔

 

 مجھے یقین ہے کہ یہ جوتا اس سعادت سے محروم رہنے پر ساری عمر ”کفِ افسوس“ ملتا رہے گا۔ اگر جناب بش اس جوتے کے وار سے بچنے کے لئے فوری طور پر سر نہ جھکاتے اور یوں یہ اپنے صحیح نشانے پر جا لگتا تو یہ اس قابل تھا کہ اسے عالمی لیبارٹریوں میں بھیج دیا جاتا تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکتا کہ بش کی کھوپڑی کے اندر بھی کچھ تھا یا نہیں، میں جانتا ہوں کہ اس جوتے میں کیمرے فٹ نہیں تھے لیکن کھوپڑی سے ٹکرانے کی صورت میں جو وائبریشن پیدا ہوتی، اس سے بہت کچھ پتہ چل سکتا تھا، ویسے اگر یہ کھوپڑی کسی اور کی ہوتی تو جوتے کے اتنے قرب سے بھی وائبریشن پیدا ہو سکتی تھی مگر یہ کھوپڑی تو جناب جارج بش کی تھی!

 

جوتا صحیح نشانے پر آتا دیکھ کر اگرچہ جنابِ بش نے سر نیچا کرکے خود کو اس ”جوتا پریڈ“ سے بچا لیا لیکن ایک بات اس سے بہرحال ثابت ہو گئی اور وہ یہ کہ امریکہ دوستوں سے بات کرتے ہوئے گردن اکڑا کر بات کرتا ہے لیکن جب کوئی اسے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے تو پھر وہ فوراً جھک جاتا ہے، بطور مثال ایران، شمالی کوریا اور وینزویلا کے نام پیش کئے جا سکتے ہیں، امریکہ ایک لاہوری کردار ”پھنے خاں“ جیسا ہے جو لوگوں کو مسلسل ”یرکانے“ میں لگا رہتا ہے لیکن جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ نہیں ”یرک“ رہے تو خود ”یرک“ جاتا ہے، ”دی نیوز“ میں عراقی صحافی منتظر الزیدی کی طرف سے کی گئی ”چاند ماری“ کی مرحلہ وار تصویریں شائع کی گئی ہیں، پہلی تصویر میں جناب بش بہت ”آکڑ خان“ نظر آ رہے ہیں، دوسری تصویر میں اپنی طرف اڑ کر آتا ہوا جوتا دیکھ کر ان کا رنگ اُڑتا دکھائی دیتا ہے اور آخری تصویر میں وہ بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں۔

 

 اس کے ساتھ ان کا بیان بھی شائع ہوا ہے جس میں وہ اپنی خفت چھپانے کے لئے ”جولی موڈ“ میں نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ کہتے ہیں ”میں نے یہ جوتا دیکھ کر اندازہ لگایا ہے کہ یہ دس نمبر تھا!“ میرے خیال میں انہیں بھی شاید یہ علم ہے کہ ”دس نمبری“ کیا ہوتا ہے تاہم سچی بات یہ ہے کہ انہیں جوتے کے جواب میں اس خوش مزاجی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تھا جس سے یار لوگ یہ اندازہ لگاتے کہ انہیں اپنا یہ عوامی استقبال پسند آیا ہے کیونکہ ممکن ہے ان کا ارادہ الوداعی ملاقاتوں کے لئے افغانستان اور پاکستان آنے کا بھی ہو!

 

دنیا بھر میں امریکی حکمرانوں کے لئے محفوظ ترین جگہ پریس کانفرنس ہال ہی تھے کیونکہ صحافی پروفیشنل لوگ ہوتے ہیں اور یوں اپنے جذبات کے تابع نہیں ہوتے، وہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے کسی مہمان پر جوتے جیسے ”ہتھیار“ سے حملہ آور ہوں، وہ یہ کام اپنے لفظوں سے لیتے ہیں چنانچہ عراقی صحافی نے جو کچھ کیا، اس سے ان کے اور پوری دنیا کے مظلوم عوام کے جذبات کی عکاسی تو ہو گئی بلکہ کتھارسز ہو گیا لیکن بہرحال یہ ایک ایسی حرکت تھی جس کی اجازت صحافتی اخلاقیات نہیں دیتی تاہم اس کا موازنہ امریکی اخلاقیات سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ نائن الیون کے بعد اس کی کوئی اخلاقیات ہی نہیں رہی۔ جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس وقت منتظر الزیدی عراق کے کسی عقوبت خانے میں ”اپنوں“ ہی کے تشدد کا نشانہ بن رہے ہوں گے بلکہ کوئی پتہ نہیں کہ ہماری طرح چند ڈالروں کے عوض انہیں امریکہ کے سپرد کر دیا جائے، بش پہ جوتا پھینکنے سے پہلے یہ سب باتیں منتظر کے ذہن میں ہوں گی لیکن انہوں نے مسلم اُمہ پر بش کے مظالم پر اپنے جذبات کا اظہار اپنی جان پر کھیل کر کیا اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، یہ غیرمعمولی شخص بجا طور پر ساری دنیا کی نظروں کا محور بنا ہے!

 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بش کے باقی ماندہ دوروں میں کس نوع کی حفاظتی تدابیر کی جائیں تاکہ ان کی عزت (اگر کوئی ہے) وہ محفوظ رہے، ہمارے محترم خبر نگار ساتھی نے اپنی تجویز نما خبر میں بتایا ہے کہ آئندہ صحافیوں کو پریس کانفرنس میں جوتے پہن کر آنے کی اجازت نہیں ہو گی، یہ منظر بہت عجیب ہو گا بلکہ اس سے کئی غلط فہمیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں، کیونکہ جوتے اتار کر مسجد یا کسی دربار ہی میں جایا جاتا ہے چنانچہ مجھے شک ہے کہ مسلمان صحافی جناب بش کو یہ عزت دینے پر تیار نہیں ہوں گے، ایک حفاظتی تدبیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پریس کانفرنس میں آنے والے صحافیوں سے حلف اٹھوایا جائے کہ وہ اپنے پاؤں اپنے جوتوں سے نہیں نکالیں گے، اس کے جواب میں ہمارے صحافی کہیں یہ نہ کہیں کہ حلف کا کیا ہے ، وہ تو ہمارے فوجی بھائی بھی اٹھاتے ہیں کہ وہ سیاست میں دخل نہیں دیں گے، ایک تجویز یہ بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ پریس کانفرنس میں شرکت کے لئے صحافیوں پر پابندی ہو کہ وہ ایسے جوتے پہن کر آئیں جو اتنے ہلکے ہوں کہ ایک آدھ فٹ سے آگے ”پرواز“ ہی نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ یہ احتیاط بھی کہ صحافیوں میں کوئی ”زیدی“ نہ ہو۔ بہرحال حفاظتی تدابیر تشکیل دینا میرا کام نہیں ہے، یہ امریکی سیکورٹی والوں کا کام ہے، اور امید ہے کہ وہ اس حوالے سے ایسے حفاظتی انتظامات کریں گے کہ بہت سے لوگ صحافت کے پیشے کو الوداع کہہ دیں گے۔ بش نے اپنے آنے پر دنیا کو پریشان کیا تھا، اب ان کے جانے پر بھی کچھ نہ کچھ تو ہو گا، بقول شاعر

 

دو ہی گھڑیاں زندگی میں مجھ پہ گزری ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے، اک ترے جانے کے بعد

 

                                 تحریر: عطاء الحق قاسمی (روزنامہ جنگ )


متعلقہ تحریریں:  

 صدام جہنم میں جاؤ

 اسلام مخالف سازشوں کا مرکز امریکہ