• صارفین کی تعداد :
  • 1968
  • 4/15/2009
  • تاريخ :

اسلامی بیداری ، مستقبل اور امۃ کو بیدار کرنے کا سلیقہ

مسجد النبی

دنیا میں مسلمانوں کی آبادی 1.5   ارب سے زیادہ ہے ۔  مسلمان مختلف ملکوں اور قومیتوں میں بکھرے پڑے ہیں ان کے ھزاروں ادارے اور تنظیمیں ہیں جو ایک دوسرے سے بیگانہ، آئندہ آنے والی نسلوں کے مفادات سے بے خبر اور امت کے دیگر حصوں کے مفادات سے ناواقف بلکہ بعض اوقات ان کے اھداف سے تضاد رکھتے ہیں ۔

    مسلمانوں کی اتنی عظیم آبادی کے ہوتے ہوۓ بھی ان کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم کرنے کے لۓ اب تک کوئی خاص اقدامات نہیں ہوۓ ہیں ان اسباب اور دیگر بہت سے اسباب کی بنا پر عالم اسلام تفرقہ اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے خطرے سے دوچار ہے ۔

    عالم اسلام کے حالات سے واقف افراد پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس دین کی وحی اور قرآن نے ضمانت دی ہے وہ مسلمانوں کے درمیان تھیوری اور مکتب کی صورت میں تو موجود ہے لیکن عملی اور عینی صورت میں اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔

    دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مسلط سیاسی نظام جو انسان کو اسکے جائز حقوق دینے کے حق میں نہیں ہیں اس بات کا باعث بنے ہیں کہ لوگوں کے بہت سے گروہ اپنے عقائد اور دین کی حفاظت کے لۓ تشدد کا سہارہ لیں ۔

آج کل دنیا میں جس چیز کو انتھاپسندی کہا جاتا ہے وہ معاشروں کے معمولی حالات کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کی بغاوت اور احتجاج ہے جس کا سرچشمہ ظلم و ستم اور غیر فطری قوانین ہیں جو بذات خود انتھا پسندی اور عالمی قوانین اور ادیان سماوی کے سے منافات رکھتے ہیں۔

    طبقاتی فاصلہ ایک ایسی لاعلاج بیماری ہے جو  مختلف معاشروں سمیت اسلامی معاشروں کے دامنگیر ہوچکی ہے یہاں تک کہ یہ فاصلہ ناجائز حکام اور ان کے زیر تسلط عوام کے درمیان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ دشمن اس سے غلط فائدہ اٹھا کر مومنین کو زیر کرنے کی فکر میں ہے اگر یہی حال رہا تو سامراجی اور طاغوتی طاقتیں ظالم حکمرانوں اور ستمدیدہ عوام کے درمیان اثر و رسوخ حاصل کرلیں گی اور مسلمان شدید تفرقہ کا شکار ہوجائیں گے بلکہ ان کے درمیان خانہ جنگی بھی شروع ہو سکتی ہے ،شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ امریکہ کے صدر امریکی حکومت اور فوج کی جانب سے مسلمانوں کو آزادی اور اقتصادی ترقی اور حق خود ارادیت دینے کی بات کررہے ہیں۔

    ہم ساری دنیا کو آگاہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اسلامی افکار بیان کرنے کا موقع دیا جاۓ اور وہ اپنے مخالفین و موافقین کے ساتھ یکسان طور پر بحث کر سکیں تو دنیا کی صورتحال بدل جاۓ  گی اور انسانی معاشرہ تمام میدانوں میں ایسی ترقی کرے گا کہ جس کی نظیر نہ ہو گی لیکن آج کل مسلمانوں کے خلاف ان کی اسلامی اور جھادی تنظیموں کے خلاف وسیع پروپگینڈے کۓ جا رہے ہیں اور انہیں انسانی معاشرے کے لۓ سب سے بڑا خطرہ بتايا جا رہا ہے ۔ 

دوسری طرف سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے عناصر پاۓ جاتے ہیں جو ضعیف النفس اور مریض القلب ہیں ان کی عقل کمزور ہے یہ لوگ مسلمانوں کی توھین کرنے والوں کا ہاتھ تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ غاصب اور ظالم طاقتیں انہیں نجات اور کامیابی سے ھمکنار کر دین گی۔

 ایسے عناصر سے دوستی اور ان کی حمایت کرنا ان دشمنوں سے دوستی کرنے کے برابر ہے جنہوں نے حالیہ صدیوں میں مسلمانوں کے ساتھ دشمنی کی انتھا کردی ہے اور کسی طرح کے ظلم و ستم سے گریز نہیں کیا ہے۔ 

    ایسے عناصر کے بعد کچھ ایسے لوگ ہیں جو سامراج کے سامنے تسلیم ہونے کی توجیھ کرتے ہیں ان کا دعوی ہے کہ اب اپنوں اور غیروں کا ظلم سہا نہیں جاتا اور اگر ہم مسلمان اپنے معاشروں میں عدل و انصاف قائم نہیں کرسکتے تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ہم بیرونی طاقتوں کا تسلط قبول کرلیں ایسی طاقتیں جن کے بارے میں ہم تحفظات ضرور رکھتے ہیں تاہم یہ طاقتیں انسان دوست اور لبرل ہیں اور اس طرح سے ہم پر حکومت کرینگی کہ یہ ہمارے فائدہ میں ہی ہوگا۔

   

یہ نہایت سادہ لوحی ہے کیونکہ ان افراد نے سامراجی اور تسلط پسند طاقتوں کے اقدامات کو سرے سے نظر انداز کردیا ہے اگر یہ لوگ دنیا کے مختلف علاقوں پر سرسری نظر دوڑائيں تو ان پر واضح ہو جاۓ گا کہ امریکہ نے جس خطہ پر بھی قدم رکھا ہے وہاں فساد پھیلایا ہے اور وہاں کے باشندوں کوذلیل و خوار کیا ہے اور یہ روش تاریخ میں ہر ظالم و جابر طاقت کی روش رہی ہے اس روش کے تحت تسلط پسند طاقتیں قوموں کی سرزمینوں پر قبضہ جمانے کے بعد انہیں غلام بنا لیتی ہیں اور "تفرقہ ڈالو حکومت کرو "کے اصول پر سارے شدومد سے عمل پیرا ہوجاتی ہیں

 اس کے علاوہ سامراج کی ایک اور گھناونی پالیسی مقبوضہ سرزمینوں کے باشندوں کا قتل عام اور عورتوں اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانا اور انہیں نوکرانیوں کے طور پر رکھنا ہے اس طرح سے سامراج مقبوضہ سرزمینوں کے باشندوں کی نسل ختم کر نے کی کوشش بھی کرتا ہے بہر حال تاریخ اور قرآن سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جن قوموں نے کفر و طاغوت کا سہارہ لیا وہ ذلیل و خوار ہوئيں اور جنہوں نے خدا کی رسی کو تھاما وہ باعزت و سربلند رہیں۔

 تحریر :  محمدعاصی ( تقریب ڈاٹ آئی آر)