• صارفین کی تعداد :
  • 3687
  • 4/20/2009
  • تاريخ :

حضرت شاہ اسماعیل شہید (حصّہ اوّل )

مزار مقدس شاه اسماعیل شهید

انقلاب پیدا کرنے والی شخصیتیں یا تو سپاہیانہ اوصاف کی مالک ہوتی ہیں اور تلوار کے زور سے قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں، یا پھر ان کی زبان میں اتنا اثر اور جادو ہوتا ہے کہ قوم کے دل و دماغ میں تغیر پیدا ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کی مسلم سوسائٹی اسی عالمگیر قانون سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن مسلم انقلابی شخصیتوں اور مصلحین کو ہمیشہ دل و دماغ کی ان دونوں خوبیوں سے آراستہ ہونے کا امتیاز حاصل رہا ہے۔ ان کے ایک ہاتھ میں جادو اثر قلم اور دوسرے ہاتھ میں امن عالم کی بقا کے لئے تیغ براں رہی ہے۔ میدان جنگ میں تو وہ سپاہیانہ جوہر دکھاتے تھے۔ لیکن اخلاقیات کے میدان میں بہت بڑے مصلح کی حیثیت سے جلوہ گر ہوتے تھے۔

ہندوستان کی مسلم انقلابی شخصیتوں میں حضرت شاہ اسماعیل شہید کا درجہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اسلام کی سربلندی تھی۔

نیز وہ تمام ذرائع کلیہ اسلامی تھے جو اس انقلاب کو پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے۔ ان کا مقصد ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم کرنا نہ تھا بلکہ وہ تو اس سرزمین میں خدا کی حکومت کا قیام چاہتے تھے جو عدل و انصاف، حق و صداقت اور خدا دوستی کی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو۔ وہ انسانیت کو پستی سے نکال کر بلندی کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ سوال یہ نہیں کہ وہ اپنے ان مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوئے بلکہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا ہندوستان کی تاریخ میں مسلم انقلابی شخصیتوں میں کوئی اور شخصیت ایسی نظر آتی ہے، جس نے اس بہادری اور بے جگری سے ایسے بلند نصب العین کے حصول کے لئے اپنی جان تک کی قربانی پیش کی ہو۔

آپ کے والد شاہ عبدالغنی تھے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے صاحبزادے تھے۔ حضرت شاہ عبدالعزیز آپ کے چچا تھے۔

 آپ کے والد بزرگوار صوفی منش ہونے کے علاوہ اسلامی علوم کے بہت بڑے ماہر اور دینیات کے استاد تھے۔ شاہ اسماعیل  نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ لیکن ان کی وفات کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے چچا عبدالعزیز کے سپرد ہوئی۔ استاد اپنے شاگرد کی ذہانت اور فطانت سے بہت خوش تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے نہ صرف اسلامی علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی، بلکہ علوم مروجہ میں بھی کمال پیدا کر لیا۔ آپ کے تمام سیرت نگار اس بات میں متفق الرائے ہیں کہ جغفرافیہ سے اتنا شغف تھا کہ کئی کئی گھنٹے ہندوستان کے نقشے کا مطالعہ کرتے رہتے۔

خدا نے آپ کو زبان اور قلم کی تمام خوبیوں سے سرفراز کیا تھا۔

آپ انتہائی طور پر سخت مزاج اور پتھر دل انسان کو بھی قائل کر لیتے۔ اسلامی عظمت و سربلندی کیلئے جو نور آپ کے سینے میں روشن تھا، وہ دوسروں کے دلوں میں بھی حرارت اور گرمی پیدا کرتا۔ چونکہ آپ نے ایک بہت بڑی انقلابی تحریک کی قیادت سرانجام دینی تھی، اس لئے آپ محض علمی سرگرمیوں سے مطمئن تھے۔

آپ صحیح معنوں میں باعمل بننا چاہتے تھے، اس لئے آپ ہر قسم کی فوجی ورزش کرتے۔ آپ نہایت عمدہ شاہسوار اور بہترین تیر انداز تھے۔ نیزہ بازی میں کمال حاصل تھا اور کشتی لڑنے میں بھی بند نہ تھے۔ آپ بلا کے تیراک تھے۔ جمنا میں دہلی سے آگرہ تک تیرتے ہوئے جاتے اور پھر تیرتے ہوئے واپس آتے۔ تکالیف اور مصائب سے محبت کا یہ عالم تھا کہ گرمیوں میں جامع مسجد کے تپتے ہوئے صحن میں گھنٹوں ننگے پاﺅں چلتے رہتے۔ آپ کئی کئی دن تک بھوک پیاس کی کوفت سہتے تا کہ آپ میں قوت برداشت پیدا ہو۔

                                                                                                                                                    جاری هے

تحریر:  جناب مولانا سعید احمد اکبر آبادی ایم اے


متعلقہ تحریریں:

بلوچ صوفی شاعر جام درک (1784ء ۔1714ء)

شاہ حسین (1539-1594)

سلطان باہو (1631-1691)