• صارفین کی تعداد :
  • 3695
  • 4/28/2009
  • تاريخ :

دنیائے اسلام میں کلینی کا مقام ( حصّہ دوّم)

شیخ کلینی کا مقبره

جناب ثقۃ الاسلام کلینی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانہ میں متولد ہوئے ، اور حضرت امام زمان (ع) کے خاص چار نمائندوں اور سفیروں کے ۔۔ جو کہ غیبت صغریٰ میں امام اور شیعوں کے درمیان رابط کی حثیت رکھتے تھے ۔۔ ہم عصر تھے۔ اس کے باوجود کہ وہ چاروں نوابِ خاص شیعوں کے بزرگ محدث اور فقیہ تھے اور شیعیان اہل بیت (ع)ان کی عظمت وجلالت کے معترف و معتقد تھے لیکن شیخ کلینی ایسی عالی مقام شخصیت کے مالک تھے کہ اس زمانے میں آپ شیعہ و سنی دونوں کے درمیان بڑے احترام کے حامل تھے اور آپ نے علی الاعلان مذہب حق اور معارف و فضائل اہل بیت(ع) کی نشر واشاعت کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔

ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ آپ کی صداقتِ گفتار و کردار کی درستگی اور احادیث و روایات کے حفظ و ثبت کے اس قدر مداح تھے کہ لکھا ہے شیعہ سنی دونوں فتویٰ لینے کے لئے آپ سے رجوع کرتے تھے اور اس سلسلہ میں آپ دونوں فرقوں کے نزدیک بڑے موثق اور مورد اعتماد شخص تھے ۔۔ اسی وجہ سے آپ کو "ثقۃ الاسلام" کے لقب سے ملقب کیا گیا،

آپ اسلامی دانشمندوں میں وہ پہلے شخص ہیں جنھیں اس لقب سے پکارا گیا اور حقیقت میں بھی آپ اس عظیم لقب کے لائق و شائستہ تھے۔ (3)

کلینی امانت و عدالت، تقوی و فضیلت ، ثبت و ضبط اور حفظ احادیث میں جو ایک جامع الشرائط موثق محدث کے صفات ہیں۔ بے مثل تھے ، علامہ محمد تقی مجلسی کے بقول:

وہ (کلینی )ہمارے تمام علماء میں اور ان لوگوں میں کہ جنھوں نے ان سے روایت اخذ کی ہے نیز اپنی کتاب الکافی کی نظم وترتیب میں بے مثل وبے نظیر تھے ۔ اور یہ ساری خصوصیات اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ پر خداوند عالم کی خاص عنایت تھی۔(4)

                                                                                                                                                          جاری هے

3. افسوس کا مقام ہے کہ اس زمانے میں لقب"ثقۃ الاسلام "یعنی ایسا عالم دین جو بہت مورد اعتماد موثق اور اسلام ومسلمین کے لئے سند وثاقت ہے ۔۔ اس قدر اہمیت رکھتا تھا کہ پہلی بار تمام شیعہ فہقاء ومحدثین کے رأس و رئیس کلینی کے لئے استعمال کیا گیا لیکن آج کل القاب وخطابات اتنا اپنی قدریں کھو چکے ہیں کہ ہر کس وناکس ، جاہل ریاکار کو بھی"ثقۃ الاسلام کہا جارہا ہے!برعکس نہند نام زنگی کافور۔

4. شرح مشیخۃ من لایحضرہ الفقیہ ص۲۶۷۔

https://www.kulayni.com