• صارفین کی تعداد :
  • 1623
  • 5/3/2009
  • تاريخ :

نئی جنگ سرد کے آغاز میں سرمایہ داری بمقابلہ شیعہ اسلام (حصّہ سوّم )

جنگ سرد علیه ایران

ایران اور امریکہ کی اعتقادی اور نظریاتی دشمنی پر روشنی ڈالنے اور ان دو ملکوں کے درمیان تنازعات کی تاریخ  کنگھالنے کے لئے لمبی مدت درکار ہے؛ لیکن امر مسلم یہ ہے کہ امریکہ اور مشرق وسطی میں اس کا اصلی حلیف «اسرائیل» کسی صورت میں بھی ایران کی حیاتی فضا کی توسیع اور اس کے پہلی سی کہیں زیادہ اثر و نفوذ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں؛ اسی لئے وہ ایک ہی آن میں ایران کے خلاف دو مختلف محاذ کھول کر ایران کے اقدامات کو بےاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں.

1- اول یہ کہ وہ ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے رائے عامہ میں دخل اندازی اور Manipulation  کرکے، یورپ میں سارکوزی جیسے دست پروردہ عناصر کو مدد کے لئے بلا کر جنجال آفرینی کررہے ہیں؛ اور

2. دوسرا محاذ یہ ہے کہ وہ تسلسل کے ساتھ وسیع انداز سے خلیج فارس کے حاشئے پر واقع عرب ریاستوں – خاص طور پر سعودی عرب – کے ساتھ مشوروں میں مصروف ہیں.

اس میں شک نہیں ہے کہ ایران اگر علاقے میں زیادہ طاقت اور نفوذ حاصل کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں ان ممالک کو مزید پسپائی اختیار کرنی پڑے گی؛ چنانچہ امریکہ عرب ممالک کو «ایران کے فرضے خطرے» سے خائف کرکے اور ایران کو فوجی اور مذہبی لحاظ سے ایک خوفناک بھوت Bugaboo بنا کر عربوں کو اپنے ساتھ ملانے کے درپے ہے. ہم اس مختصر سے مضمون میں وہابیت کی تفصیل بیان کرنے سے قاصر ہیں مگر انتہاپسند وہابی سلفیوں کے عقائد اور تشیع کے بارے میں اتنا ہی بتانا کافی ہے کہ تشیع کے ساتھ اس کی عداوت تاریخی ہے؛ وہابیت اپنے کردار، مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے خون کو مباح کرنے، اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بچوں تک کو ذبح کرنے اور بم دھماکوں اور خاصر طور پر خودکش بم دھماکوں میں بےگناہ مردوں، عورتوں اور بوڑھوں اور بچوں کے قتل عام کرنے کو نظرانداز کرکے؛ وحدت امت کے اکلوتے داعی یعنی تشیع کو امت واحدہ کے درمیان تفریق اور منافرت کا سبب سمجھتی ہے اور اسی بنا پر علاقے کے وہ حکمران جو اہل سنت کی پیروکاری کے دعویدار ہیں اور سنی ہونے میں اپنے مفادات دیکھتے ہیں، سنیوں کی حیثیت سے امریکہ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں تاکہ تشیع کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے کے لئے اس استکباری قوت سے استفادہ کرسکیں اور ان کے عوام کہیں شیعہ ہوکر ان کے گریبان میں ہاتھ نہ ڈالیں.

لیکن امریکہ مخالف محاذ کی تین اضلاع میں سے دو ضلعیں یعنی روس اور چین گو کہ عرصے سے آزاد معیشت کی طرف مائل ہوئے ہیں اور معاشی عالمگیریت economic globalism میں محو ہوگئے ہیں لیکن ان ان دونوں نے بائیں بازو کے اعتقادی اور نظریاتی رجحانات کے باعث امریکی دشمنی کو اپنے ذہنوں کی خفیہ تہوں میں ایک بار پھر جنم دیا ہے.

روس – جو بائیں بازو کے نظریات کا تاریخی مرکزہ – سمجھا جاتا ہے، اور تقریباً آتھ عشروں تک لبرل امریکی کیمپ کے خلاف جدوجہد کرتا رہا ہے، شکست کی تلخی کو پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے محسوس کر رہا ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ شدت و حدت کے ساتھ اپنے مفادات کو امریکہ کی وجہ سے خطرے میں پا رہا ہے.

 چیک جمہوریہ اور پولینڈ میں میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب پر روسی امریکی نئی کشمکش بذات خود اس دعوے کی دلیل ہے.

اگرچہ امریکہ نے کہا ہے کہ مذکورہ سسٹم کی تنصیب کا مقصد شمالی کوریا اور ایران کے خطرے سے نمٹنا ہے مگر کریملن کے حکام اپنے اس یقین پر اصرار کر رہے ہیں کہ روس کی سرحدوں کے ساتھ میزائل دفاعی سسٹم کی تنصیب کا مقصد روس کے میزائل سسٹمز پر تسلط قائم کرنا اور روس کے سامنے نئی دیوار برلن کی تعمیر کے مترادف ہے. انہوں نے خبردار کیا ہے کہ یہ امریکی اقدام ہتھیاروں کی نئی دوڑ اور دنیا کا تزویری توازن بگڑنے کا سبب بنے گا.

                                                                                                                                                         جاری ہے

ترجمہ: خلیل حسین حسینی ( آبنا ڈآٹ آئی آر )


متعلقہ تحریریں:

امریکہ اورعراق کا استعماری معاہدہ

عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات

غزہ کے دردناک المیے پر رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام