• صارفین کی تعداد :
  • 2409
  • 5/6/2009
  • تاريخ :

نئی جنگ سرد کے آغاز میں سرمایہ داری بمقابلہ شیعہ اسلام

(حصّہ چهارم)

نئی جنگ سرد

روس نے تنازعے سے بچنے کے لئے امریکیوں کو پیشکش کی ہے کہ وہ آ کر آذربائی جان میں واقع روس کے ہمراہ مشترکہ طور پر ماسکو کے زیر استعمال "قبلہ راڈار بیس" سے استفادہ کرے ( یہ راڈار اڈا 1991 سے روس کے زیر استعمال ہے اور 2012 تک روس ہی کے زیراستعمال رہے گا) مگر واشنگٹن یورپ میں اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنے پر اصرار کر رہا ہے اور یہ امر ماسکو کی تہران اور بیجنگ کے ساتھ قربت کا سبب بن گیا ہے.

چندماہ قبل اس وقت کے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دورہ تہران – جو گذشتہ چھ عشروں میں پہلے روسی صدر کی حیثیت سے تہران آئے تھے؛ روس – امریکہ کے تزویری تنازعے کی سنجیدگی پر سے پردہ اتھاٹا ہے.

کمیونسٹ ملک چین – جو اس وقت معاشی، فنی اور فوجی میدانوں میں عالمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے؛ تائیوان کے ساتھ طویل المدت تنازعے کا تجربہ رکھتا ہے اور یہ ملک تائیوان کو امریکہ سے منسوب کرتا ہے، موجودہ حالات و واقعات اور نئے سیاسی اور جغرافیائی قواعد کے تحت اپنے لئے نئی حیثیت و مقام کی تلاش میں مصروف ہے، کیونکہ بڑی طاقت ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود مناسب بین الاقوامی حیثیت سے بہرہ مند نہیں ہے اور یہ صورت حال طبیعی طور پر چین کو روس اور ایران کے قریب تر کررہی ہے.

اسی بنا پر اگر ہم روابط کی اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے «نئی سرد جنگ» کی اصطلاح استعمال کریں تو بےجا نہ ہوگا کیونکہ مغرب اور خاص طور پر امریکہ کے ساتھ روایتی اور قدیمی دشمنی رکھنے والے ان تین ملکوں کے درمیان ایک علاقائی قطب و مرکز کا ظہور ان روابط کو سرد جنگ کی طرف لے جاتا ہے اور یہ امریکہ کے لئے سنجیدہ چیلنج اور اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے سنہری موقع ہے. چنانچہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس تاریخی موقع سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے

 اپنے آپ کو اصلی محور و مرکز میں تبدیل کرنا چاہئے اور تشیع کے طرز حکومت اور اسے اپنے اسلامی انقلاب کو عالمگیر کرنے کا منصوبہ اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہئے کیونکہ سوشلسٹ کیمپ کے درہم برہم ہونے اور  مارکسسٹ طرز حکومت کے تصور کے خاتمے اور لبرلزم کی اندرونی کمزوریاں زیادہ سے زیادہ آشکار ہوجانے کے بعد آج کی دنیا اس طرز معاشرہ کی پیاسی ہے جو حقانیت پر مبنی ہو اور مذہب تشیع اور اس کا حکومتی نظام اس ضرورت کا جواب دینے کے سلسلے میں اصلی اور بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے اور چونکہ سنی حکام کہلانے والے عناصر اسلام ممالک پر مسلط ہونے کے باوجود اپنی قوموں کی نمائندے نہیں ہیں بلکہ بڑی طاقتوں کے نمائندے ہیں اور ان ممالک پر مغربی تسلط قائم رکھنے کے فرائض نبھا رہے ہیں، لہذا یہ نظام سنی اقوام کی نمائندگی بھی کر سکے گا اور ان کے حقوق کے لئے بھی اقدامات کر سکے گا.

حقیقت یہ ہے کہ تشیع ہی اس نئے دور میں عالم اسلام کی نمائندگی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور صرف تشیع ہی ایسا مکتب ہے جس کے پاس عالمی سطح پر گفتگو کے لئے قوی منطق بھی ہے اور عصری احتیاجات و ضروریات کی جوابدہی کی صلاحیت سے بهی لیس ہے.

اسی لئے نئی سرد جنگ لبرل سرمایہ داری اور شیعہ اسلام کے دو محاذوں پر مشتمل ہے اور اس سلسلے میں تمام تر ظرفیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لانا چاہئے تاکہ دنیا کو روئے زمین پر «صالحین کی حکومت» کے لئے تیار کیا جا سکے.

                                                                                                                                                                 ختم شد

ترجمہ: خلیل حسین حسینی ( آبنا ڈآٹ آئی آر )


متعلقہ تحریریں:

امریکہ اورعراق کا استعماری معاہدہ

عالم اسلام اور مغرب کے مابین تعلقات