• صارفین کی تعداد :
  • 3570
  • 5/10/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (37) ویں آیت کی تفسیر

قرآن کریم

ارشاد ہوتا ہے :

" قال لا یاتیکما طعام ترزقانہ الّا نبّاتکما بتاویلہ قبل ان یّاتیکما ذلکما ممّا علّمنی ربّی انّي ترکت ملّۃ قوم لّا یؤمنون باللہ و ہم بالآخرۃ ہم کافرون "


[ یوسف ( ع) نے ] کہا اس سے پہلے کہ تم کو جو کھانا دیا جاتا ہے تمارے سامنے آئیں میں تمہیں ، تمہارے خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا ، یہ وہ (علم ) ہے جو میرے پروردگار نے مجھے تعلیم دیا ہے ، یقینا" میں اس قوم کے دین و آئین سے الگ ہوچکا ہوں جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے اور آخرت کا بھی انکار کر بیٹھے ہیں ۔

عزیزان گرامی! جس وقت جناب یوسف (ع) کو قید خانے میں ڈال دیا گیا اور وہاں دو افراد سے، جو مصر کے دربار سے وابستہ رہ چکے تھے اور کسی جرم کی سزا کے طور پر قید میں ڈال دئے گئے تھے ، مقدمات ہوئی تو ان لوگوں نے یوسف (ع) کو ان کی جلالت کے سبب کوئی خدا رسیدہ شخص خیال کیا اور ان سے اپنے اپنے خواب بیان کرکے تعبیر جاننا چاہی تو آیت کے مطابق جناب یوسف علیہ السلام نے پہلے تو ان کو یقین دلایا کہ ابھی، تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی ،میں تم کو تمہارے خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا کیونکہ مجھے یہ علم میرے پروردگار نے عطا کیا ہے اور پھر اپنی رسالت کا فریضہ ادا کرتے ہوئے کفر و شرک کا مسئلہ چھیڑدیا کہ اگر خدا نے اپنے لطف کے تحت مجھے علم سے نوازا ہے اور میں نے خواب کی سچی تعبیر دینے کی قوت و صلاحیت پیدا کی ہے تو یہ اس لئے ہے کہ میں نے اپنی قوم اور ملت کے ان افراد کے طور طریقوں سے دوری اختیار کررکھی ہے جو خدا اور روز آخرت کے منکر ہیں میں خدائے یگانہ کی پرستش کرتا ہوں اور جو تعبیر دوں گا اللہ کے عطا کردہ علم پر استوار ہوگي ۔ کاہنوں اور نجومیوں کے گمان اور تخمینہ پر اس کا انطباق نہ کرنا میری باتیں ایمان اور یقین پر مبنی ہیں ۔ یہاں اہل وعظ و نصیحت کے لئے قابل توجہ بات یہ ہے کہ جناب یوسف (ع) نے اپنے مخاطب قیدیوں سے یہ نہیں کہا کہ تم خدا اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے بلکہ خود اپنی قوم کی گمراہی کا ذکر کیا ہے تا کہ مخاطب کو اپنے قریب کرسکیں اور راہ ہدایت ہموار ہوجائے ۔

     اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف  ۔ع ۔ (33) ویں  آیت کی تفسیر

سورہ یوسف  ۔ع ۔ (32) ویں  آیت کی تفسیر