• صارفین کی تعداد :
  • 3882
  • 5/16/2009
  • تاريخ :

فتحِ الکوثر’’ شہادتِ سیدہ خدیجہ بنتِ علی ‘‘ (حصّہ دومّ)

سیدہ خدیجہ بنت علی کا روضہ

14 محرم الحرام 61 ہجری، سورۂ کوثر کا جواب تحریر کرنے کے لئے ابلیسی نمائندے مسجد کوفہ کے مشرقی دروازے کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ اہلِ کوفہ کا جم غفیر ہے۔ عبید اللہ ابن ذیاد مکمل فرعونیت کے ساتھ تخت نشین ہوا۔ اس کی نظر ایک ناتواں اور کمزور قیدی پر پڑی تو اس نے دریافت کیا۔

’’وہ کمزور قیدی کون ہے، جسے کربلا میں قتل نہیں کیا گیا۔‘‘ عمر ابن سعد نے جواب دیا۔ ’’ اے امیر! یہ قیدی علی ابن حسین ہے جو میدان نہیں آ سکا، کیونکہ یہ بیمار تھا۔‘‘ ابن ذیاد نے کہا’’ علی ابن حسین کو تو اللہ نے قتل نہیں کرا دیا۔‘‘

’’میرے پاس جو فہرست بھیجی گئی اس کے مطابق حسین کے تمام علی اور حسن کے تمام محمد قتل ہو چکے ہیں، یہ علی کیسے بچ گیا۔‘‘

قرآن مجید کی آیتوں کی بے حرمتی شروع ہوتی ہے۔ سورۂ کوثر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ وارثِ کوثر یہ سن کر اہلِ کوفہ سے خطاب کرتے ہیں۔ خطیب منبر سلونی کے وارث، خطیب نوک سناں کے بیٹے کا خطبہ سن کر اہلِ کوفہ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔

ابن ذیاد نے اعلان کیا، ’’جو اس مجبور و کمزور قیدی کی آواز قطع کرے گا میں اس کو تیس ہزار دینار نقد دوں گا۔ جو اس کا سر لے کر میرے پاس آئے گا میں اسے یزید ابن معاویہ سے جنت کی سند لے کر دوں گا۔‘‘

لالچ کے اندھے ہزاروں لوگ فرزند حسین  کی طرف دوڑے۔ پوری فوج امام وقت کے قتل پر ٹوٹ پڑی۔ ہزاروں تلواریں بے نیام ہوئیں۔ سر حسین نے نوک نیزہ سے تلاوت شروع کر دی۔ شیر خدا کی شیر دل صاحبزادیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں لائحہ عمل طے ہوا۔ نسلِ رسول کا آخری چراغ زیر تلوار آنے کو تھا۔ اونٹوں پر سوار پابند رسن سید زادیاں برق رفتاری سے سید سجاد پر سایہ فگن ہو گئیں۔ مخدراتِ عصمت نے اپنے آپ کو امام وقت پر ایسے گرایا جیسے پرندے اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے ان پر گر جاتے ہیں۔

کئی تلواریں اٹھیں۔ ایک لعین کی تلوار چلی۔ امام کی حفاظت کے لئے اما م کے سر پر جھکی ہوئی سیدہ خدیجہ بنتِ علی بن ابی طالب کا سر اور آپ کی گود میں معصوم سید زادے حضرت حسن ابن محمدبن عقیل کا سر تن سے جدا ہو گیا۔

زمین کوفہ میں زلزلہ آیا۔ اس زور کی آندھی آئی کہ ابن ذیاد ملعون کا دربار اکھڑ گیا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ یزید پلید سے پروانۂ جنت لکھوانے والے لالچی، عقل کے اندھے ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ لوگ سمجھے قیامت آ گئی۔

امام وقت نے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا!

’’اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ میں اپنے والد اور اپنے بھائیوں کے بے گور و کفن لاشے کھلے میدان میں چھوڑ آیا ہوں۔ وہ مرد تھے، لیکن یہ میری اور تیرے پیارے رسول کی غیرت کا سوال ہے۔ میں اپنی پھوپھی معظمہ کا جسد پاک ان بے غیرت مسلمانوں کے سامنے برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘

زمین ایک زبردست گڑ گڑ اہٹ کے ساتھ پھٹی۔ ایک قبر کھدی ہوئی ظاہر ہوئی۔ امام زین العابدین اور مخدرات اہلِ بیت عصمت و طہارت نے سیدہ خدیجہ بنتِ علی اور آپ کے لختِ جگر کو سپردِ لحد کیا۔

یہ سیدہ خدیجہ بنتِ علی ہیں جو حضرت مسلم بن عقیل ،سفیر حسین کے چھوٹے بھائی حضرت محمد بن عقیل،شہیدِ کربلا کی زوجہ محترمہ ہیں۔ آپ خواتین میں بعد شام غریباں پہلی شہیدہ ہیں اور وصےّتِ حیدرِ کرّار کو پورا کرنے والی پہلی دختر نیک اختر ہیں۔

آپ اور آپکے صاحبزادے کی قبر اطہر مسجد کوفہ کے باہر والے دروازے کے سامنے نجف جانے والی سڑک کے کنارے چوک میں آج بھی ایک عظیم الشان روضے کی شکل میں موجود ہے۔

یزید اور یزیدیت ہمیشہ کے لئے باطل اور جہالت کی اتھاہ گہرائیوں میں گم ہو چکی ہے۔ نور مصطفٰی و مرتضٰی ، عالمین کو روشن کئے ہوئے ہے۔ مخلوق خدا کی راہنمائی ہو رہی ہے۔ اور لوگوں کے تزکےۂ نفس اور قوت ایمانی کو جلا مل رہی ہے۔

سیدہ خدیجہ بنتِ علی نے فرزندِ رسول پر اپنا لختِ جگر قربان کر دیا۔ آپ نے ہمیشہ کی زندگی حاصل کر کے دنیا پر ثابت کر دیا کہ علی اور اولادِ علی دین محمد کے حقیقی وارث و محافظ ہیں۔ بیٹے ہوں یا بیٹیاں، ابو طالب کی پوتیاں ہوں یا پوتے، ذریتِ مخدومۂ کونین، سّیدہ فاطمہ زہرا پر اپنی جانیں نچھاور کر سکتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے آل رسول اللہ اور دینِ اسلام پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائے گی، خواہ اس پر نسل ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔

نسلِ یزید ختم ہو گئی۔ آل مصطفی سلامت ہے۔

 نہ یزید کی وہ جفا رہی، نہ ستم وہ ابنِ ذیاد کا
جو رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا

 

سیدہ خدیجہ بنتِ علی  نے سورۂ کوثر کی حفاظت کے لئے ایک بہت بڑی جنگ جیت لی۔

                                                                                                                                                        ختم شد.

 تحریر : پیرسیدعلی عباس شاہ ۔ منڈی بہاؤالدین


متعلقہ تحریریں:

حضرت ام کلثوم بنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مختصر حالات

شہر بانو ( امام زین العابدین ۔ع۔  کی والدہ )

حضرت معصومہ (س) کے مختصر حالات

درّہ بنت ابولہب