• صارفین کی تعداد :
  • 3000
  • 11/3/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,49) ویں آیات کی تفسیر

قرآن کریم

سورۃ یوسف کی تفسیر

سورۂ یوسف ( ع ) کی چوتھی،پانچویں،چھٹی آیت

یوسف کی ساتویں،آٹھویں،نویں،دسویں آیات کی تفسیر

سورۂ یوسف (ع) (11 تا 15 ) آیات کی تفسیر

سورۃ یوسف ( 16 تا 18 ) آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ ( 19۔20 ) آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ ( 22۔21 ) آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ 23 ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ 24 ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ 25 ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ (26۔27 ) ویں آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ (28۔29) ویں آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ (30) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع۔ (31) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (32) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (33) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (34) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (35) ویں آیت کی تفسیر

اور اب سورۂ یوسف (ع) کی 36 ویں آیت ، ارشاد ہوتا ہے :

سورہ یوسف ۔ع ۔ (37) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (38) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (39 اور 40) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (41) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ ( 41 تا 43 ) آیات کا خلاصہ

سورہ یوسف ۔ع ۔ (43) ویں آیت کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,45) ویں آیات کی تفسیر

 

رسول اعظم (ص) اور ان کے اہلبیت مکرم (ع) پر درود و سلام کے ساتھ

الہی تعلیمات پر مشتمل آسان و عام فہم سلسلہ وار تفسیر" پیام قرآن" میں آج ہم اپنی گفتگو سورۂ یوسف (ع) کی آیات چوالیس اور پینتالیس کی تلاوت اور ترجمہ و تشریح کے ساتھ شروع کررہے ہیں ارشاد ہوتا ہے :

" قالوا اضغاث احلام و ما نحن بتاویل الاحلام بعالمین و قال الّذی نجا منہما و ادّکربعد امّۃ انا انبّئکم بتاویلہ فارسلون "

( در بارشاہی کے کرسی نشینوں نے ) کہا : بڑا ہی درہم برہم پریشان کن خواب ہے اور ہم لوگ اس طرح کے خواب پریشاں کی تعبیر دینے سے آگاہ نہیں ہیں اور ان دونوں ( قیدیوں ) میں سے ایک ، جس کو رہائي نصیب ہوگئی تھی ، مدتوں بعد ، بیٹھے بیٹھے ہی [یوسف (ع) کی ] یاد آگئی ( کہ کس طرح انہوں نے خواب کی تعبیر دی تھی ) اور اس نے کہا : میں اس خواب کی تعبیر آپ کو (ابھی) بتاتا ہوں آپ مجھ کو ( جیل میں جا کر ایک قیدی سے ملنے کی ) اجازت دیدیجئے کہ ( میں اس سے خواب کی تاویل لے آؤں)۔

عزیزان محترم ! ہم نے عرض کیا تھا کہ مصر کے بادشاہ نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا کہ سات کمزور و لاغر گائیں ، سات موٹی تازی گایوں کو کھا رہی ہیں اور سوکھی بالیوں کے درمیان سات بالیاں سرسبز و شاداب ہیں اور اس کی تعبیر جاننے کے لئے درباریوں سے کہا کہ اس خواب کی تعبیر کون بتا سکتا ہے ؟ اس کے جواب میں دربار کے تمام کاہنوں اور نجومیوں نےاس "خواب پریشاں" کی تعبیر بیان کرنے سے معذوری ظاہر کی اور کہا یہ تو بڑا ہی درہم برہم، ذہن کو منتشر کردینے والا خواب ہے اس وقت قیدخانے سے آزادی حاصل کرنے والے اس قیدی کو جس کے خواب کی تعبیر جناب یوسف (ع) نے بتائی تھی کہ عنقریب ہی تم دربار میں اپنے شراب پلانے کے قدیم منصب پر بحال کردئے جاؤگے اور یہ تعبیر بالکل سچی ثابت ہوئی تھی ، جناب یوسف (ع) یاد آگئے اور اس نے شاہ مصر سے کہا آپ مجھے قید خانے میں فلاں قیدی سے ملنے کی اجازت دیدیں میں ابھی آپ کے خواب کی تعبیر اس سے پوچھ کر آتا ہوں ۔

اور اب سورۂ یوسف کی آیات چھیالیس اور سینتالیس ارشاد ہوتا ہے :

یوسف ایہّا الصّدیق افتنا فی سبع بقرات سمان یّاکلہنّ سبع عجاف و سبع سنبلات خضر وّ اخر یا بسات لّعلیّ ارجع الی النّاس لعلّہم یعلمون

( اور وہ شخص جیل میں گیا اور یوسف علیہ السلام سے کہا ) یوسف (ع) ، اے ہمیشہ سچ بولنے والے ! ذرا اس خواب کی تعبیر بتائیے کہ سات موٹی تازی گایوں کو سات کمزور و لاغر گائیں کھا رہی ہیں اور سوکھی بالیوں کے درمیان سات ہری اور سرسبز بالیاں ہیں تا کہ میں لوگوں کے درمیان واپسی جاؤں اور لوگوں کو شاید تعبیر کا پتہ چل جائے ۔

" قال تزرعون سبع سنین دابا فما حصدتّم فذروہ فی سنبلہ الّا قلیلا" مّمّا تاکلون "

( یوسف نے ) جواب دیا : سات سال تک مسلسل کھیتی کرو اور جو اناج پیدا ہو، فصل کاٹ کر صرف اس مختصر اناج کو چھوڑ کر جو استعمال کرنا ہے ، بقیہ تمام اناج بالیوں کے ساتھ محفوظ کرتے جانا ۔

پھر اڑتالیسویں اور انچاسویں آیتوں میں ، جناب یوسف (ع) فرماتے ہیں :

" ثم یاتی من بعد ذالک سبع شداد یاکلن ما قدّمتم لہن الّا قلیلا" ممّا تحصنون ثم یاتی من بعد ذالک عام فیہ یغاث النّاس و فیہ یعصرون "

اس کے بعد کے سات سال سخت (قحط) کے آئیں گے اور جو کچھ تم نے ان برسوں میں ذخیرہ کیا ہے اس کو کھاتے رہنا سوائے اس مختصر اناج کے جو تم نے ( آئندہ کشت کے لئے بیج کے طور پر ) بچا رکھا ہوگا ۔پھر اس کے بعد جو سال آئے گا لوگوں کے لئے بارش کے ساتھ فراوانی کاسال ہوگا اور لوگ ( پھلوں کے ) عرق نچوڑیں گے ۔

عزيزان محترم ! جناب یوسف (ع) کا قصہ " احسن القصص" ہونے کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی قرآن کا شاہکار ہے اور علّامہ طباطبائی کے بقول " یہ اسلوب اور طرز بیان قرآنی اسالیب کے لطائف میں سے ہے " ایک لمبی داستان کے بہت سے مطالب حذف کرکے ، وہ انداز بیان اپنایا ہے کہ جملوں کے درمیان بیان نہ کئے جانے والے مطالب خود بخود سمجھ میں آجاتے ہیں ۔بہرحال دربار شاہی میں ساقی کے فرائض انجام دینے والا ، جیل کا مصاحب ،حضرت یوسف (ع) کے پاس آیا اور شاہ کا خواب بیان کرکے اس کی تعبیر معلوم کی تو باوجود اس کے کہ جیل سے چھوٹ کر اس شخص نے یوسف (ع ) کو مدتوں فراموش کردیا تھا اور ان کا پیغام بھی شاہ تک نہیں پہنچایا تھا اور جیل میں آکر بغیر کسی تمہید کے اس نے اپنا سوال سامنے پیش کردیا تھا ، جناب یوسف (ع) کی فراخ دلی دیکھئے کہ کسی بھی قسم کے شکوہ و شکایت کے بغیر خواب کی تعبیر بیان کردی ،یہ بھی نہیں کہا کہ مجھے قید سے آزاد کراؤ دربار میں لے چلو میں شاہ کے سامنے اس کے خواب کی تعبیر دوں گا ، اپنی کوئی بات نہیں کی ، کسی بھی غرض اور صلہ کی پروا کے بغیر جواب دے دیا خدا کے نبیوں اور ولیوں کی یہی وہ روش ہے جو ان کو دوسروں سے ممتاز قرار دیتی ہے البتہ جیل کے مصاحب نے ، حقیقت کا اعتراف کہئے یا اپنی شرمندگی اور خوشامد کی بات ، جناب یوسف کو " ایہا الصدیق " کہکے خطاب کیا ہے جو اس بات کا اعلان تھا کہ آپ کی پیشینگوئی میرے بارے میں بالکل صحیح ثابت ہوئی یا یہ کہ آپ کے قول و عمل میں کسی طرح کا تضاد نہیں پایا جاتا اور میں آپ کو ایک سچا اور کبھی جھوٹ نہ بولنے والا شخص سمجھ کر آپ کے پاس آیا ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ جو تعبیر دیں گے وہ سچی تعبیر ہوگي اور مجھے شاہ کے دربار میں شرمندہ نہیں ہونا پڑے گا ، واضح رہے کہ قرآن میں حضرت یوسف (ع) کے علاوہ حضرت ابراہیم (ع) اور حضرت ادریس (ع) کے لئے بھی لفظ صدیق استعمال ہوا ہے اور اسلامی روایات کی روشنی میں مرسل اعظم (ص) نے علی ابن ابی طالب (ع) کو بھی صدیق کے لقب سے یاد کیا ہے ۔

چنانچہ حضرت یوسف (ع) نے شاہ کے خواب کی نہ صرف تعبیر بیان کردی بلکہ قحط اور خشکسالی کے نقصانات سے نجات کا راستہ بھی بیان کردیا جو ان کے علم و دانش اور نظم و تدبیر کی علامت ہے ۔

فرماتے ہیں : تمہارے لئے سات سال خوشحالی کے ہوں گے اس میں کھیتی پر توجہ دینا اچھی فصلیں تیارکرنا لیکن اس کے بعد کے سات سال سخت قحط و خشکسالی کے ہوں گے اس لئے ان برسوں کے لئے ابھی سے ، فصلیں کاٹتے وقت اناج خوشوں یا بالیوں کے ساتھ ہی محفوظ کرتے جانا اور صرف اتنی ہی مقدار میں دانے الگ کرنا کہ جتنا استعمال کرنا ہے کہ قحط کے برسوں میں ذخیرہ کئے ہوئے اناج سے مختصر مختصر تعداد میں حسب ضرورت استفادہ کرسکو اور آخر میں یہ خبر بھی دیدی کہ سات سال کے قحط کے بعد پھر بارش اور پیداوار میں فراوانی کا دور آئے گا اور لوگ پھلوں کے عرق نچوڑیں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے ۔گویا حضرت یوسف (ع) نے موٹی تازي گایوں اور سرسبز و شاداب بالیوں سے ، خوش حالی کے سات سال اور کمزور و لاغر گایوں سے قحط کے سات سال مراد لئے تھے اور اس سے نتیجہ نکال کر مصر کے بادشاہ اور درباریوں کو آئندہ سے خبردار کردیا تھا اور اب زير بحث آیات سے جو سبق ملتے ہیں ان کا خلاصہ :

سچے خواب دیکھنا صرف نبیوں اور ولیوں سے مخصوص نہیں ہے ، گناہگار قیدی یا ظالم بادشاہ بھی سچے خواب دیکھ سکتے ہیں مگر انبیاء (ع) کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے خواب ہمیشہ سچے ہوتے ہیں ،جبکہ دوسروں کے خواب کے لئے ضروری نہیں کہ وہ سچے ہی ہوں ۔

ہر طرح کے خواب کی تعبیر دینا ، ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے جیسا کہ شاہ مصر کے دربار میں موجود کاہنوں اور نجومیوں نے اعتراف کیا تھا کہ ہم خواب پریشاں کی تعبیر نہیں دے سکتے ۔

ارباب حکومت کا فریضہ ہے کہ ملک و معاشرے کو بحرانی حالات سے نجات دلانے کے لئے نظم و تدبیر سے کام لیں اور مستقبل کی طرف سے غفلت و بے توجہی سے کام نہ لیں ۔

عوام الناس کی مشکلات خصوصا" اقتصادی مسائل حل کرنا حکومت کا کام ہے ۔

اردو ریڈیو تہران