• صارفین کی تعداد :
  • 2491
  • 1/26/2010
  • تاريخ :

حضرت عباس (ع) کی کمالیہ صفات (حصہ سوّم)

یا قمر بنی هاشم
علمدار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہیں : علم صرف بہادروں کے پاس رہنا چاہئے جو شخص مصائب کو برداشت کرسکے اور شدائد کا مقابلہ کرسکے وہی محافظ کہاجا سکتا ہے اور جو محافظت کا اہل ہوتاہے وہی پرچم کے گردو پیش رہتاہے اور چار طرف سے اس کی حفاظت کرتاہے محافظ اپنے پرچم کو ضائع نہیں کرتے ، وہ نہ پیچھے رہ جاتے ہیں کہ پرچم دوسروں کے حوالے کردیں اور نہ آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پرچم کو چھوڑ دیں“ امام علی کے مذکورہ بیان کی روشنی میں علمدار شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم، مستقل مزاج اور صابر انسان ہوتا ہے ، کربلا کے میدان میں لاثانی مجاہدوں کے ہوتے ہوئے امام حسین حضرت عباس کو علم دے کر شجاع، بہادر، محافظ، غیرت دار، ثابت قدم، مستقل مزاج اور صابر ہونے کی سند عطا کر رہے تھے، حضرت عباس کی دوسری صفت کمالیہ آپ کا سقاء ہونا ہے، سقائی یعنی پانی پلانا، کسی کو پانی پلاکر سیراب کرنا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے جس کے لئے بے شمار اسلامی روایات موجود ہیں لیکن جب یہی کام کسی جاندار کی زندگی بچانے کا سبب بن جائے تو صفت کمالیہ میں شمار ہونے لگتا ہے کیونکہ اس کام کو خدا وند عالم نے اپنے عظیم احسانات میں شمار کیا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔

اور ہم نے آسمان سے پانی اس لئے نازل کیا ہے کہ اس سے مردہ زمینوں کو زندہ بنائیں اور حیوانات و انسان کو سیراب کریں اور رسول اسلام فرماتے ہیں :جس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا، اب اگر پانی پلا کر کسی کی زندگی کو بچالیا جائے تو وہ بھی اسی زمرے میں آئے گا، پانی پلا کر زندگی بچانے کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے جب شارع مقدس نمازیوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ اگر نمازی کے پاس صرف اتنا پانی ہو جس سے صرف وضو ہو سکتا ہو اور کوئی بھی جاندار پیاس کی شدت سے دم توڑ رہا ہو تو وضو کا پانی پلا کر جاندار کی زندگی بچالی جائے اور نماز تیمم سے ادا کی جائے ۔

حضرت عباس ایسے ہی باکمال سقاء تھے آپ نے اپنی سقائی سے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جانیں بچائیں، سن ۳۴ ہجری میں انقلابیوں نے مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور کھانا پانی تک گھر میں نہ جانے دیا اس طرح حضرت عثمان اور ان کے اہل خانہ بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے تو ساقی ٴ کوثر حضرت علی نے کھانے کا سامان اور پانی کے مشکیزے اپنے بیٹوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے گھر پہنچوائے، یہاں بھی حضرت عباس کی عمر اگرچہ ۸ سال تھی لیکن آپ نے پانی پلا کر لوگوں کی جان بچائی، تعجب ہے ابن زیاد پر جس نے امام حسین اور ان کے بچوں پر پانی بند کرنے کے حکم نامے میں اس بات کا حوالہ دیاتھا کہ انہیں (اہل بیت کو ) اسی طرح پیاسا رکھو جس طرح خلیفہ عثمان کو پیاسا رکھا گیا تھا، جن لوگوں نے خلیفہ  عثمان اوران کے اہل خانہ کی پیاس بجھائی انہیں کو خلیفہ عثمان پر بندش آب کے جرم میں پیاسا رکھا گیا، اس سے زیادہ نا انصافی اور کیا ہو سکتی ہے، بہر حال اسی طرح سن ۶۰ ہجری میں منزل ذو خشب یا ذو حسم کے پاس جب یزیدی کمانڈر حر نے امام حسین کا راستہ روکا تو حر کے لشکر کی زبانیں شدت عطش سے باہر نکل چکی تھیں، گھوڑے اور اونٹ بھی لب دم تھے امام حسین نے جناب عباس کو حر کے لشکر کی مع جانوروں کے پیاس بجھاکر جان بچانے کی ذمہ داری سونپی۔

حضرت عباس نے حر کے لشکر کو مع جانوروں کے سیراب کردیا اور جانوروں کے آگے سے جب تک پانی نہ ہٹایا گیا جب تک کہ تین مرتبہ جانوروں نے پانی سے خود منھ نہ پھیر لیا، لیکن ۶۱ ہجری میں حضرت عباس نے اپنی سقائی کو بام عروج تک پہنچادیا، علمداری کی یہ صفت بھی آپ کو امام معصوم حضرت علی سے ورثہ میں ملی تھی، حضرت علی کو ساقی ٴ کوثر کا خطاب ملا ہوا تھا۔

لیکن عباس کی معراج نے اس خطاب کو مبالغہ میں بدل دیا اور اس طرح آپ سقاء کہلائے، سقاء مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ سیراب کرنے والے، حضرت علی نے لوگوں کو مہیا پانی سے سیراب کیا لیکن کربلا میں حضرت عباس نے جو سقائی کرنا چاہی اس میں پانی بھی خود ہی مہیا کرنا تھا ۔

تحریر : سید پیغمبر عباس نوگانوی

الحسنین ڈاٹ کام


متعلقہ تحریریں:

جناب عباس علمدار علیہ السلام ( حصّہ دوّم )

امّ البنين مادر ابوالفضل (ع)