• صارفین کی تعداد :
  • 2771
  • 2/23/2010
  • تاريخ :

سید بن طاؤوس(فقیہ آگاہ)

بسم الله الرحمن الرحیم

فقہ میں بلند مقام حاصل کر لینے کے بعد حلہ کے بعض اساتذہ نے سید سے خواہش ظاہر کی کہ علمائے گذشتہ کی طرح فقہ کا درس شروع کریں لوگوں کو حلال و حرام سے آگاہ کریں، فتوے صادر کریں، اسلام جیسے مقدس دین سے لوگوں کو روشناس کریں لیکن خاندان طاؤوس کے اس مرد مجاہد نے مثبت جواب دینے سے معذرت کا اظہار کیا کیونکہ ان کے سامنے سورہ الحاقہ کی آیتیں تھیں:

”ولو تقول علینابعض الاقاویل الاخذنا منہ بالیمین ثم لقطعنا منہ الوتین منکم من احد حاجزین۔“(الحاقہ۔ ۴۷۔۴۴)

”اور اگر یہ (محمد ) ہم پر بعض باتوں کا افترا کرتا تو ہم ضرور اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے اور ہم ضرور اس کی شہ رگ کاٹ ڈالتے پھر تم میں سے کوء یبھی اس کی طرف سے روکنے والا نہ ہوتا ۔“

دل کی گہرائی سے سید اس آیت پر متوجہ تھے جس کی بنا پر وہ مقام فتویٰ سے دور رہے وہ یہ سوچ رہے تھے کہ جب خدا وند عالم نے پیغمبر اسلام کو اس طرح ڈرایا ہے اور خلاف احکام و خلاف واقع بیان سے روکا ہے تو فتویٰ دینے میں اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا لہٰذا انہوں نے عمیق معلومات کے باوجود اپنے کو مقام فتویٰ سے دور کھا ہمیشہ بندہ صالح کی طرح عنایت خدا وندی کے امیدوار ہے۔

دام قضاوت

اگرچہ ابن طاوؤس آبرومندانہ طور پر منصب فتویٰ ترک کر کے اپنے لئے دوسرا راستہ اختیار کر چکے تھے لیکن حلہ ایسے مرد عظیم کو کیسے چھوڑ سکتا تھا لہٰذا لوگوں نے ایک بار پھر ان کے گھر اجتماع کیا اورعرض کیا کہ منصب قضاوت کوقبول کریں اور علمائے گذشتہ کی طرح لوگوں کو مشکلات سے نجات دیں۔

سیدابن طاؤوس نے جواب میں فرمایا:

” مدتوں سے عقل اور نفس کے درمیان کشکمش جاری ہے عقل خود سازی کی دعوت دیتی ہے اور نفس ہوس ہلاکت و گمراہی کی طرف بلاتا ہے۔ نفس، ہویٰ ، ہوس و شیطان سب متحد ہو کر مجھ کو دنیا کا غلام او رآخرت سے دور رکھنا چاہتے ہیں میں نے ان دونوں دشمنوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا عقل خرد کو حق عطا کیا میں نے عقل و ہوای نفس کو متحد کرنے کی کوشش کی لیکن نفس نے سرکشی اور عقل کی پیروی نہ کی عقل نے بھی نفس کی پیروی نہ کی عقل نے بھی نفس کی پیروی کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ میرے لئے نفس کی اطاعت کرنا صحیح نہیں ہے۔

میں اس عمر تک دونوں کے درمیان فیصلہ کرنے، اختلاف ختم کرنے، صلح و دوستی کرانے سے قاصر ہوں، جو شخص اتنی طویل مدت میں ایک فیصلہ نہ کر سکے وہ معاشرے کے خیر اختلافات کیسے دور کرے گا؟

اے لوگو! تم ایسے شخص کے پاس قضاوت کے لئے جاؤ جس کے نفس و عقل کے درمیان اختلاف نہ ہو آسانی سے شیطان کو شکست دے، خدا کی خوشنودی کے لئے قدم آگے بڑھائے ایسا شخص صحیح قضاوت کر سکتا ہے اور اختلاف کو دور کر سکتا ہے“۔

اسلام ان اردو  ڈاٹ  کام


متعلقہ تحریریں:

شیخ شہید (فضل اللہ نوری)

آیت اللہ محمد تقی شیرازی

آیت اللہ علی صافی ـ حیات تا وصال