• صارفین کی تعداد :
  • 1408
  • 4/26/2011
  • تاريخ :

خلیج فارس کے سواحل

خلیج فارس
تاریخی دستاویزات سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ جنوبی ایران میں واقع صوبۂ بوشہر کا علاقہ اپنی اسٹریٹیجک حیثیت کے پیش نظر تیسری ہزاری قبل مسیح سے ہی سمندری اڈے کے لۓ ایک مناسب مقام اور ایک آباد ساحل رہا ہے ۔

یہ علاقہ عیلام بادشاہت کا ایک اہم مرکز بھی تھا۔ ہخامنشیوں کے عہد میں ، کہ جب ایران بیس صوبوں پر مشتمل ایک ملک تھا ، بوشہر مشرقی زاگرس اور پارس کے درمیان ایک صوبے کا حصہ تھا۔ اردشیر بابکان کے زمانے میں موجودہ بوشہر سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر رام اردشیر شہر کو تعمیر کیا گيا ۔

آج اس شہر کے کھنڈرات ری شہر کے نام سے معروف ہیں۔

ساسانیوں کے دور میں ری شہر ایک آباد ساحلی شہر تھا اور اس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ اور اس کو ریو شہر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ظہور اسلام کے بعد کی چند صدیوں تک ریشہر میں کافی رونق رہتی تھی۔ پرتگالیوں کی دستاویزات کے مطابق سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں ریشہر ایک بڑے تجارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تیرہ سو دس ہجری شمسی میں قدیم شہر اور علاقے ریشہر کو ایران کی قومی میراث میں شامل کیا گیا۔

خلیج فارس کے علاقے کی سوق الجیشی، اقتصادی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر تاریخ میں مختلف ممالک اور حکومتوں نے علم و ثروت کے تبادلے اور اثر و رسوخ میں اضافے کے لۓ اس علاقے کو اپنی توجہ کا مرکز بناۓ رکھا۔

خلیج فارس کے ساحلی علاقوں پر یورپی حکومتوں نے اولین حملے پندرہ سو چھ میں کۓ ۔ یہ حملے مصراور وینس کے مقابلے میں پرتگال کے مفادات کے تحفظ کے لۓ کۓ گۓ۔ ایک ہزار اکتیس ہجری قمری کو شاہ عباس نے خلیج فارس سے پرتگالیوں کا اثر و رسوخ مکمل طور پر ختم کردیا ۔ صفوی عہد کے اواخر میں جنوبی ایران پر یورپی اور بعض ہمسایہ ممالک نے حملے کۓ ۔ نادر شاہ افشار نے سیکورٹی نیز خلیج فارس کے سواحل اور جزائر کے درمیان باہمی رابطے کی برقراری کے مقصد سے بحریہ کو مسلح کرنے پر توجہ دی۔ اور گيارہ سو سینتالیس ہجری قمری مطابق سترہ سو پینتیس عیسوی کو عبدالطیف خان دشتستانی کو دشتستان میں جنوبی ساحلی علاقے کا کمانڈر مقرر کیا۔ لطیف خان نے موجودہ بوشہر کے مقام کو ، جو کہ اس وقت ایک ساحلی آبادی شمار ہوتا تھا، اپنی کارروائی کے لۓ منتخب کیا۔ اس کے بعد سے بوشہر کو خلیج فارس کی ایک اہم بندرگاہ کی حیثیت حاصل ہوگئي۔

کریم خان زند کے زمانے میں خلیج فارس کے سواحل اور جزائر خصوصا بوشہر کی سرزمین میں انگریزوں کے اثر و رسوخ میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا۔

 اور انہوں نے بوشہر میں ایک تجارتی مرکز بنانے کا لائسنس حاصل کر لیا۔ ایران میں زندیہ کے بعد قاجاری خاندان برسراقتدار آیا ۔ اس خاندان کو خلیج فارس میں بالکل اثر و رسوخ حاصل نہیں تھا۔ اسی وجہ سے رفتہ رفتہ خلیج فارس میں انگریزوں کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گيا۔ اور سنہ بارہ سو ستائيس ہجری قمری مطابق اٹھارہ سو بارہ عیسوی کے بعد سے بوشہر میں تعینات برطانیہ کا قونصل جنرل خلیج فارس کے علاقے کا حاکم ہوا کرتا تھا۔ اس علاقے میں انگلستان کا نمائندہ اپنے آپ کو زیادہ طاقتور اور اس علاقے کے لوگوں کی جان و مال کا مالک سمجھتا تھا۔ اٹھارہ سو ستاون عیسوی میں ناصرالدین شاہ کے زمانے میں برطانوی حکومت نے حکومت ایران کی جانب سے ہرات اور افغانستان میں اپنے ناجائز مفادات خطرے میں پڑے کا بہانہ بنا کر جنوبی ایران پر حملہ کردیا اور جزیرۂ خارک پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد برطانوی فوجوں نے بوشہر کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ تنگستان ، دشتستان اور بوشہر کے جنگجوؤں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر انگریز فوج کا مقابلہ کیا۔

بشکریہ اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

گیلان میں شفا بخش چشمے

ایران کا سب سے لمبا بازار

 مشہد ایک چھوٹے گاؤں سے ایران کےدوسرے بڑے شہر ہونے تک

مشہد ایک چھوٹے گاؤں سے ایران کےدوسرے بڑے شہر ہونے تک  (حصّہ دوّم)

دارالعبادہ یزد