• صارفین کی تعداد :
  • 2185
  • 5/14/2011
  • تاريخ :

زندگی کے درس اور اخلاق کو فطرت سے سیکھیں

بسم الله الرحمن الرحیم

اعتقادی اصولوں کو سیکھنے اور اخلاقی دروس کو حاصل کرنے کے لیۓ  ہمارے لیۓ فطرت بہترین کلاس ہے ۔ اللہ تعالی نے ہمیں لاتعداد  اور گرانقدر قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان نعمتوں کے حصول  پر ہم جس قدر بھی اللہ تعالی کے حضور سجدہ  بہ ریز ہو کر  اس کی ذات کا شکر ادا کریں ، وہ کم ہے ۔

قرآن میں بہت سی  طبیعی چیزوں کا ذکر کیا  گیا ہے ۔ بہت سی قرآتی سورتوں کے نام طبیعی امور  پر ہیں ۔ مثال کے طور پر سورہ تین  یعنی انجیر طبیعی ہے ۔

سورہ فیل ، سورہ زلزلہ ، عادیات ، قارعہ ، علق ، شمس ، لیل ،ضحی ،فجر ، بلد ، غاشیہ ، انشقاق ،افطار ، سورہ تکویر  فطرتی نام ہیں ۔

قرآن کے آغاز سے ہی فطرت کا ذکر شروع ہو جاتا ہے ۔ سورہ بقرہ جزء فطرت ہے ۔ سورہ نساء میں عورتوں کا ذکر ہے وہ بھی طبیعی ہیں  ۔ اسی طرح سورہ مائدہ ، اعراف ، انعام ،انفال ، نحل کھف سب فطرتی اور طبیعی ہیں ۔

یہ دریا کہاں سے نکلتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں ؟ اگر ندی   پر غور کریں تو پہلا سوال ہمارے ذہن میں یہ آتا ہے کہ آخر یہ پانی کہاں سے آیا  اور کہاں جاتا ہے ۔

انسان بھی بالکل اسی طرح ہے ۔ ایک حدیث ہے کہ  «رحم الله اُ مَراً» خدا کی رحمت اس پر ہو کہ «عَلِمَ»  جو یہ جان جاۓ «مِن اَین» وہ کہاں تھا «و فی أین» اور کہاں ہے «و الی أَین» اور کہاں جاۓ گا ۔

امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : " اصلی مومن وہ ہے کہ  ہر رات جب وہ سونے لگے تو حساب کرے کہ اس نے کیا کیا ہے ؟ 

اگر انسان کو یہ معلوم ہو جاۓ کہ اس کی کیا قیمت ہے تو وہ یونہی خود کو سستا کبھی نہ بیچے ۔ اپنی اہمیت کو زندہ رکھنے کے لیۓ وہ ہر لحظہ برنامہ ریزی کرے گا ۔

اگر ہمیں  یہ معلوم ہو جاۓ کہ ہمارے پاس جو نوٹ ہیں وہ بےحد کم قیمت کے ہیں تو ہم اسے کسی کم قیمت چیز کے ساتھ آسانی سے رد و بدل کرنے پر راضی ہو جائیں گے اور اگر ہمیں یہ معلوم ہو جاۓ کہ  ہمارے پاس جو چیز ہے وہ سونا ہے تو ہم کسی بھی قیمت پر اسے کسی دوسرے فرد کو دینے پر تیار نہیں ہونگے ۔

جس طرح نہر یا رودخانے  اور دریا کو دیکھ کر انسان کے ذھن میں سوال جنم لیتے ہیں کہ آخر یہ کہاں سے نکلتے ہیں اور کہاں جاتے ہیں ۔ اسی طرح  خود سے یہ سوال بھی کریں کہ آج سارا دن جو وقت میں نے  گزارا ہے وہ کہاں خرچ کیا ہے ۔

نہروں اور دریاؤں سے ایک اور سبق جو ہم حاصل کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ زندگی کو ہمیشہ حرکت میں رہنا چاہیے اور اس میں سکوت کبھی بھی نہیں آنا چاہیۓ ۔ حرکت میں ہی برکت ہے اور انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لیۓ وہ کوشش کرتا ہے ۔ اس لیۓ ہمیں زندگی میں کبھی بھی مایوسی کی حالت میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھنا چاہیۓ اور ہمیشہ اپنی زندگی میں بہتری لانے لیۓ کوشش  کرتے رہنا چاہیے ۔

تحریر : سید اسداللہ ارسلان


متعلقہ تحریریں:

سارے مسلماں بھائی بھائی

طبیب، جو خود مریض کے پاس جائے

قریش کو معاف کر دیا

ہمسفر کے حقوق

 ریوڑ سے بچھڑا ہوا اونٹ