• صارفین کی تعداد :
  • 2257
  • 8/5/2011
  • تاريخ :

 بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟ (حصّہ دوّم)

بچّہ

اکثر بچے اسکول جانے سے قبل بار بار ماں کا منہ چومتے ہيں- بعض اپنے تمام کھلونوں سے باري باري پيار کرتے ہيں خصوصاً بچياں اس معاملے ميں زيادہ جذباتيت کا اظہار کرتي ہيں؛ بھالو وغيرہ سے باقاعدہ گفتگو کرتے ہوئے بچوں کو ديکھا گيا ہے- اس دوران بعض مائيں پريشاني کا اظہار کرتي ہيں اور اکثر اوقات ڈانٹ بھي ديتي ہيں- يہ طريقہ مناسب نہيں- ايسي صورت ميں بچے کو اعتماد کي ضرورت ہوتي ہے- انہيں بتايا جائے کہ تمہارے کھلونوں کو کوئي نہيں چھيڑے گا- جب تم اسکول سے واپس آو گے تو يہ تمہيں ايسے ہي مليں گے کوئي چيز يہاں سے غائب نہيں ہوگي-

خوش قسمتي سے جيسے جيسے بچے بڑے ہوتے جاتے ہيں اپني عادات کو بھي بدلتے جاتے ہيں- 5 سے 6 سالہ بچوں کے لئے يہ ضروري ہے کہ انہيں الفاظ کي ادائيگي ميں مہارت حاصل کرنے ميں مدد دي جائے تاکہ وہ نئے الفاظ سيکھ کر اور ان کي ادائيگي کر کے لطف اندوز ہوں- اس دوران وہ ادھوري ہي سہي ليکن بعض معاملات پر بحث کرنا شروع کرديں گے- انہيں اور آپ کو الفاظ سے کھيلنے ميں مزا آئے گا-

اکثر گھروں ميں کھانے کا وقت ميدانِ جنگ کا نقشہ پيش کرتا ہے- اگر تين چار بچے ہوں تو وہاں اس قسم کي صورتحال کا والدين کو اکثر سامنا رہتا ہے- کھانے کي ميز پر والدين کو تحمل و برداشت اختيار کرنے کي سب سے زيادہ ضرورت ہوتي ہے- خصوصاً ايسے وقت جب آپ اتني محنت سے کھانا تيار کريں اور کوئي بچہ کھانے سے انکار کردے اور اس چيز کا مطالبہ کرے جو فوري طور پر بنانا آپ کے لئے ممکن نہيں اور آپ کي کوئي دھمکي بھي کارگر ثابت نہ ہو تو آپ کے لئے خود پر قابو رکھنا کافي مشکل ہوجاتا ہے-

در اصل کھانا وہ واحد عمل ہے جس ميں کمسن بچہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس پر مکمل اختيار رکھتا ہے- لہٰذا کھانے سے انکار کر کے وہ اپنے اس خود مختارانہ احساس کو تقويت ديتا ہے اور کسي حد تک اس سے لطف اندوز بھي ہوتا ہے- اس ميں وہ ماں کو ہدايت ديتا ہے کہ مجھے فلاں چيز چاہيے- وہ ماں کي اس کمزوري سے واقف ہوتا ہے کہ کھانے کے معاملے ميںوہ اس کي خواہش کا احترام کرنے پر مجبور ہے جب کہ بڑي عمر کے بچے بھي اس معاملے ميں چھوٹے بچوں سے زيادہ مختلف نہيں ہوتے- وہ بھي ہر کام اپني مرضي سے کرنا چاہتے ہيں- انہيں اپنے ہاتھ سے کام کر کے زيادہ خوشي محسوس ہوتي ہے- يہي وجہ ہے کہ وہ کھانا خود اپني پليٹ ميں ڈالنا پسند کريں گے- اسي طرح پاني کي بوتل کو خود کھول کر گلاس ميں انڈيلنے ميں انہيں مزا آتا ہے اور اس قسم کي ضديں اکثر کھانے کي ميز کا حليہ بگاڑ ديتي ہيں جو يقينا ماں کے لئے تکليف کا باعث ہوتا ہے-

بچوں کي ان چھوٹي چھوٹي ضدوں پر آپ بھي جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہ کريں- بہتر ہوگا کہ آپ ان کے مطالبات پر ان کا ساتھ ديں- مثال کے طور پر اگر بچہ کہتا ہے کہ ميں خود بوتل کھولوں گا تو آپ اس کو سکھائيں کہ بوتل کيسے کھولي جاتي ہے- اسي طرح لنچ باکس کو کھولنے کے معاملے ميں ان کي رہنمائي کريں- آپ کوئي بھي چيز خود پہلے ہلکي سي کھول ديں، يعني ڈھکن کو ڈھيلا کرديں اور پھر وہ چيز بچوں کے ہاتھ ميں پکڑا ديں- اس سے بچے کي ضد بھي پوري ہو جائے گي اور کسي قسم کے نقصان کا احتمال بھي نہيں رہے گا-

اس کے علاوہ يہ بھي ديکھا گيا ہے کہ بعض والدين دودھ کے معاملے ميں بچوں پر سختي کرتے ہيں- انہيں دودھ زبردستي پلايا جاتا ہے- اگر کوئي بچہ دودھ پينے سے انکار کردے تو ناشتے ميں ايک کپ دہي اسے کافي غذائيت فراہم کردے گا يا ايک کپ پھلوں کا جوس بھي دودھ کا بہتر نعم البدل ثابت ہوگا- ناشتے کے معاملے ميں بھي بچوں پر زبردستي نہ کريں تو بہتر ہے- آپ کي کوشش ہوني چاہيے کہ ناشتہ ہلکا پھلکا مگر صحت بخش ہو- کسي بھي نئي غذا سے متعارف کراتے وقت نرمي کا مظاہرہ کريں- اگر آپ انہيں مجبور کريں گے تو بچے چڑ جائيں گے اور اس طرح اچھي چيز پہلے خود کھائيں پھر اس کے ذائقے کي تعريف کريں- اس سے بچوں کو کھانے کي ترغيب ملے گي-

اکثر ديکھا گيا ہے کہ زبردستي ٹھونسي گئي غذا بجائے فائدے کے بچوں کے لئے نقصان دہ بھي ثابت ہو جاتي ہے- بچوں کے سامنے پوري غذا رکھنے سے بہتر ہے کہ ان کي پليٹ ميں غذا کا تھوڑا سا حصہ رکھيں- اگر وہ اس کو پسند کريں تو مقدار بڑھاتے جائيں- اس سے غذا کے ضياع کا احتمال جاتا رہے گا-

جب بچے اسکول سے واپس آئيں اور کھانے کي ميز پر بيٹھ جائيں تو آپ انہيں کھانے کے ادب و آداب سکھانے سے گريز کريں- اس وقت وہ کسي قسم کے ليکچر سننے کے موڈ ميں نہيں ہوں گے اور نہ آپ کي باتيں ان پر اثر کريں گي- بچے اس وقت تھکے ہوئے، چڑچڑے اور بھوکے ہوتے ہيں- انہيں سمجھانے کے لئے چھٹي کے دن کا انتخاب کريں، اس دن بچے پرسکون ہوں گے اور آپ کي بات زيادہ توجہ سے سنيں گے-

تحرير: نرجس زبير


متعلقہ تحريريں:

تعليم و تربيت کے بارے ميں اسلامي علما کي آرا و نظريات

تمام والدين کي  آرزو (حصّہ سوّم)

تمام والدين کي  آرزو ( حصّہ دوّم )

اسلامي تمدن ميں تعليم و تربيت کے مقامات

تمام والدين کي آرزو