• صارفین کی تعداد :
  • 2612
  • 8/27/2011
  • تاريخ :

کتاب کا مطالعہ (حصّہ پنجم)

کتاب کا مطالعہ

ماں باپ کى دوسرى ذمہ دارى يہ ہے کہ وہ اپنى اولاد کى اس طريقے سے پرورش کريں کہ وہ علم و دانش حاصل کرنے، کتاب پڑھنے اور بحث و تحقيق کے شيدا بنيں ان کے گھر کا ماحول عملى ہونا چاہيے اور وہ اپنے بچوں کو قول و عمل سے مطالعہ کرنے کا شوق دلائيں بہتر يہ ہے کہ يہ طريقہ کاربچپن ہى سے شروع کرديا جائے اور بچے کے سکول جانے سے پہلے اسے اس طرز عمل کا عادى بنايا جائے پہلے آپ بچوں کو کتاب پڑھ کر سنائيں چھوٹے چھوٹے سادہ اور قابل فہم قصّوں اور کہانيوں کى کتابيں انہيں لا کرديں اگر يہ کتابيں تصويروں والى ہوں تو اور بھى بہتر ہے پھر ہر روز ماں باپ يا بڑى بہن يا بھائي اس کتاب کا کچھ حصہ چھوٹے بچے کو پڑھ کر سنائيں اور اگر اس کتاب ميں تصويريں بھى ہوں تو کتاب کے مطالب کى ان تصويروں کے ساتھ تطبيق کرکے بچوں کو بتائيں پھر اس سے کہا جائے کہ اس کہانى کا خلاصہ بتائے اور اگر اس ميں چھوٹے چھوٹے شعر بھى ہوں تو اسے وہ شعر ياد کرائے جائيں البتہ اس سلسلے ميں جلدى کا مظاہرہ نہيں کرنا چاہيے يا بچے کى استعداد اور خواہش کے مطابق اسے کہانياں پڑھ کر سنائي جائيں نہ کہ اس کى استعداد سے زيادہ کيوں کہ اگر اس کى استعداد اور فہم سے زيادہ اس پر ٹھونسنے کى کوشش کى گئي تو وہ شروع ہى سے کتاب پڑھنے سے بيزار ہو جائے گا يہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھيں جب تک بچہ خود پڑھنا اور لکھنا سيکھ نہيں جاتا اس کے بعد کتاب پڑھنے کى ذمہ دارى خود بچے پر ڈال دى جائے کبھى کبھى کتاب کے متعلق اس کى رائے معلوم کى جائے کتاب کے مطالب کے بارے ميں اس گفتگو کى جائے يہ سلسلہ اس وقت تک جارى رکھيں جب بچہ خود بخود کتاب پڑھنے کا عادى ہوجائے يہاں پر والدين کى خدمت ميں چند نکات کى ياد دہانى ضرورى ہے

1 بچے کہانياں پسند کرتے ہيں اور ان کے مطالب کو اچھى طرح سمجھتے ہيں البتہ کلى مطالب کو وہ اچھى طرح نہيں سمجھتے اس لحاظ سے بچوں کى کتابيں حتى المقدور کہانيوں کى صورت ميں ہونى چاہيے

 2 ہر بچہ ايک الگ شخصيت کا مالک ہے تمام افراد کى استعداد اور ذ وق برابر نہيں ہوتے مختلف عمروں  ميں ان ميں تبديلى آتى رہتى ہے لہذا ماں باپ پہلے اپنے بچے کى استعداد اور ذوق کو سمجھيں اور پھر  اسى کے مطابق اس کے ليے کتابيں لائيں مشکل اور بوريت سے بھر پور مطالب اس پر ٹھونسنے سے پرہيز کريں کيوں کہ ممکن ہے ايسا کرنا اسے کتابيں پڑھنے سے بيزار کردے

 3 چونکہ بچے کى شخصيت کى تعمير ہو رہى ہوتى ہے اور کتاب اس پر گہرا اور عميق اپر چھوڑتى ہے لہذا اسے ہر طرح کى کتاب نہيں دى جا سکتى ماں باپ پہلے خود خود وہ کتاب پڑھيں ، اس کے مطالب پر مطمئن ہونے کے بعد وہ بچے کے سپردکريں اگر بچے نے کوئي گندى کتاب پڑھى تو يہ اس کى روح پر برا اثر ڈالے گى جب کہ اس کى دوبارہ تربيت کرنا اور اسے سدھارنا بہت مشکل کام ثابت ہوگا

بشکريہ :  مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي


متعلقہ تحريريں:

کتاب کا مطالعہ

تمام والدين کي  آرزو

والدين کا احترام

بچوں کي خوراک سے متعلق چند باتوں کو ہميشہ ذہن ميں رکھيں

 بچوں کو منظم کيسے کيا جائے؟ (حصّہ دوّم)