• صارفین کی تعداد :
  • 2643
  • 11/3/2011
  • تاريخ :

چورى چکاري

سوالیہ نشان

کئي دفعہ ايسا ہوتا ہے بچہ دوسروں کے ماں کى طرف ہاتھ بڑھاتا ہے کھانا ، پھل يا کسى اور بچے کے کھلونے زبردستى لے ليتا ہے باپ کى جيب سے يا ماں کے پرس سے چورى چھپے پيسے نکال ليتا ہے ماں نے کھانے کے ليے چيزيں چھپا کے رکھى ہوتى ہيں اسميں ہاتھ مارتا ہے دکان سے چپکے سے چيزا اٹھا ليتا ہے بہن يا بھائي يا ہم جماعت کى پنسل ، پين ، رہبڑيا کا پى اٹھاليتا ہے اکثر بچے بچپن ميںاس طرح کے کم زيادہ کام کرتے ہيں شايد ايسا شخص کوئي کم ہى ملے کہ جسےبچپن کے دنوں ميں اس طرح کے واقعات ہر گز پيشنہ آئے ہوں ، بعض ماں باپ اس طرح کے واقعات ديکھ کر بہت ناراحت ہوتے ہيں اور بچے کے تاريک مستقبل کے بارے ميں اظہار افسوس کرتے ہيں ، وہ پريشان ہوجاتے ہيں کہ ان کا بچہ آئندہ ايک قاتل ياچور بن جائے گا اس وجہ سے وہ اپنے آپ ميں کڑھتے رہتے ہيں سب سے پہلے ان ماں باپ کو اس امر کى طرف توجہ دلانا چاہيے کہ زيادہ ناراحت نہہوں اور اس پہ اظہار افسوس نہ کريں کيونکہ يہ چھوٹى چھوتى چيزيں اٹھا لينا يا چرا لينا اس امر کى دليل نہيں کہ آپ کا بچہ آئندہ شرير ، غاصب اور چور ہوگا ، کيونکہ بچہ ابھى رشد و تميز کے اس مرحلہ پر نہيں پہنچا کہ کسى کى ملکيّت کے مفہوم کو اچھى طرح سمجھ سکے اور اپنے اور د وسرے کى ملکيت ميں فرق کرسکے بچے کے احساست اس کى عقل سے زيادہ قوى ہوتے ہيں اس ليے جو چيز بھى اسے اچھى لگتى ہے انجام سوچے بغير اس کى طرف لپکتا ہے بچہ فطرى طور پر شرير نہيں ہوتا اور بچے کى يہ غلطياں اس کے باطن سے پيدا نہيں ہوتى يہ تو عارضىسى چيزيں ہيں جب بڑا ہوگا تو پھر ان کا مرتکب نہيں ہوگا ايسے کتنے ہى پرہيزگار ، امين اور راست باز انسان ہيں کہ جو بچپن ميں اس طرح کى ننّھى منى خطائيں کرتے رہے ہيں البتہ ميرے کہنے کا يہ مقصد نہيں کہ آپ ايسى خطاğ کو ديکھ کر کوئي رد عمل ظاہر نہ کريں اور اس سے بالکل لا تعلق رہيں بلکہ مقصد يہ ہے کہ ان کو ديکھ کر بچے کو شرير اور ناقابل اصلاح نہ سمجھ ليں ايسے ہى داد و فرياد نہ کرنے لگين بلکہ صبر اور بردبارى سے ان کا علاج کريں خاص طور پر دو تين سالہ بچہ اپنے اور غير کے مال ميں فرق نہيں کر سکتا اور ملکيّت کى حدود کو اچھى طرح نہيں سمجھ سکتا جس چيز تک اس کا ہاتھ پہنچ جائے اس اپنا بناليتا چاہتا ہے جو چيز بھى اسے اچھى لگے اٹھالينا چاہتا ہے اس مرحلے پر ڈانٹ ڈپٹ اور مارپيٹ کا کوئي فائدہ نہيں اس مرحلہ پر ماں باپ جو بہترين روش اپنا سکتے ہيں وہ يہ ہے کہ بچے کو عملاً اس کام سے روک ديں اگر وہ زبردستى کوئي چيز دوسرے بچے سے لينا چاہے تو اسے اجازت نہ ديں اور اگر وہ لے لے تو اس سے لے کر واپس کرديں جو چيز وہ چاہتے ہيں کہ بچہ نہ اٹھائے اسے اس کى دسترس سے دور رکھيں زيادہ تر بچے جب رشد و تميز کى حد تک پہنچ جاتے ہيں اور ملکيّت کى حدود کو اچھى طرح جان ليتے ہيں تو پھر دوسروں کے مال کى طرف وہہاتھ نہيں بڑھاتے اور چورى نہيں کرتے البتہ بعض بچے اس عمر ميں بھى اس غلط کام کے مرتکب ہوجاتے ہيں اس موقع پر ماں باپ کو خاموش اور لاتعلق نہيں رہنا چاہيے يہ درست نہيں ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کى چورى چکارى کو ديکھيں اور اس کى اصلاح نہ کريں اور يہ کہتے رہيں کہ ابھى بچہ ہے اس کى عقل ہىاتنى ہے جب بڑا ہوگا تو پھر چورى چکا رى نہيں کرے گا البتہ يہ احتمال ہے کہ جب وہ بڑاہو تو چورى نہ کرے ليکن يہ احتما ل بہت ہے کہ ان چھوٹى چھوٹى چوريوں سے اسے چورى کى مستقل عادت پڑجائے اور وہ ايک چورا اور غاصب بن کر ابھر سے علاوہ ازيں يہ بات بھى درست نہيں ہے کہ بچہ کسى کا ياماں باپ کا مال اٹھا لے اور کوئي اسسے کچھ نہ کہے او راسسے بھى بدتر يہ ہے کہ ماں باپ اپنے بچے کے غلط کام پر اسے منع کرنے کى بجائے اس کا دفاع اور اسکى حمايت کرنے لگيں اگر کوئي ان سے شکايت کرے کہ انکے بچے نے اس کا مال چرايا ہے تو يہ شور و غل کرنے لگيں کہ ہمارے بچے پر يہ الزام لگا يا کيوں گيا ؟

اس طرح کے نادن ماں باپ اپنے طرز عمل سے اپنى اولاد کو چورى چکارى کى تشويق کرتے ہيں اور عملاً انھيں سبق ديتے ہيں کہ وہ چورى کريں اور مکر جائيں اور اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے ليے شور مچائيں اس بناپر ماں باپ کو نہيں چاہيے کہ وہ اپنے اولاد کے غلط کاموں سے لاتعلق رہيں بلکہ انہيں کوششکرنا چاہيے کہ وہ انہيں ايسے کام سے روکيں کہيں ايسا نہ ہو کہ برائي ان کے اندر جڑ پکڑے اور عادت بن جائےاور عادت کو ترک کرنا بہت مشکل ہے حضرت على عليہ اسلام فرماتے ہيں: ''عادت کو ترک کرنا انتہائي کٹھن کام ہے ''

بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

غير ملکي چينلوں کے برے اثرات سے بچيں (حصّہ دوّم)

غير ملکي چينلوں کے برے اثرات سے بچيں

راستگوئي

آزاد اور پيار بھرے خانداني باہمي تعلقات (حصّہ دوّم)

آزاد اور پيار بھرے خانداني باہمي تعلقات