• صارفین کی تعداد :
  • 3048
  • 2/13/2012
  • تاريخ :

تربيت كرنے والوں كى آگاہى اور باہمى تعاون

بچہ

بچے كى تربيت كوئي ايسى سادہ اور آسان سى بات نہيں ہے كہ جسے ہر ماں باپ آسانى سے انجام دے سكيں _ بلكہ يہ كام بہت سى باريكيوں اور ظرافتوں كا حامل ہے _ اس ميں سينكڑوں بال سے باريك تر نكات موجود ہيں _ مربى كا تعلق بچے كى روح سے ہوتا ہے _ وہ روحانى ، نفسياتى علمى اور تجرباتى پہلوؤ ں  سے آگاہى كے بغير اپنى ذمہ دارى بخوبى انجام نہيں دے سكتا _ بچے كى دنيا ايك اور ہى دنيا ہے اور اس كے افكار ايك اور ہى طرح كے افكار ہيں اس كى سوچوں كا انداز مختلف ہوتا ہے ، جس كا بڑوں كے طرز تفكر سے موازنہ نہيں كيا جا سكتا بچے كى روح نہايت ظريف اور حساس ہوتى ہے اور ہر نقش سے خالى ہوتى ہے اور ہر طرح كى تربيت كو قبول كرنے كے لئے آمادہ ہوتى ہے _ بچہ ايك ايسا چھٹا سا انسان ہوتا ہے ، جس نے ابھى تك ايك مستقل شكل اختيار نہيں كى ہوتى جب كہ ہر طرح كى شكل قبول كرنے كى اس ميں صلاحيت ہوتى ہے _ بچے كے مربّى كو انسان شناس اور بالخصوص بچوں كا شناسا ہونا چاہيے _ تربيت كے اسرار و رموز پر اس كى نظر ہونى چاہيے _ انسانى كمالات او رنقائص پر اس كى نگاہ ہونے چاہيے _ اس كے اندر احساس ذمہ دارى بيدار ہونا چاہيے اور اسے اپنے كام سے دلچسپى بھى ہونا چاہيے _ اسے صابراور حوصلہ مند ہونا چاہيے اور مشكلات سے ہراسان نہيں ہونا چاہيے _ علاوہ ازين تربيت كے قوانين سو فيصد كلى نہيں ہوتے كہ جنہيں ہر جگہ پر اور ہر كسى كے ليے قابل اعتماد قرار ديا جا سكے _ بلكہ ہر بچے كى اپنى جسمانى ساخت اور عقلى صلاحيتوں كے اعتبار سے اپنى ہى خصوصيات ہوتى ہيں لہذا اس كى تربيت اس كى جسمانى ساخت ، عقلى قوتوں ، حالات اور ماحول كے تقاضوں كى مناسبت سے ہونى چاہيے _ ماں باپ كو چاہيے كہ بچے كى جسمانى ساخت كا صحيح طرح سے جائزہ ليں اور اسى كے پيش نظر اس كى تربيت كريں ورنہ ممكن ہے ان كى كوششوں كاوہ نتيجہ برآمد نہ ہوسكے جو ان كى خواہش ہے _

مرداور عورت كو چاہيے كہ ماں باپ بننے سے پہلے بچے كى تعليم و تربيت كے طريقے سے آگاہى حاصل كريں _ اس كے بعد بچے كى پيدائشے كے لئے اقدام كريں ، كيوں كہ بچے كى تربيت كامرحلہ اس كى ولادت سے بلكہ اس سے بھى پہلے شروع ہوجاتاہے _ اس حساس عرصے ميں بچے كى لطيف اور حساس طبيعت كوئي شكل اختيار كرتى اور اس كے اخلاق، كردار ، عادات حتى كہ افكار كى بنياد پڑتى ہے _

يہ صحيح نہيں ہے كہ ماں باپ اس حاس عرصے ميں غفلت سے كام ليں اور تعليم و تربيت كو آئندہ پر ٹال ديں _ يعنى تعليم و تربيت كو اس وقت پر اٹھانہ ركھيں كہ جب بچہ اچھے يا برے اخلاق و كردار يا اچھى يا برى عادتوں كے بارے ميں تقريبا ايك مزاج اختيار كرچكا ہو _ كيونكہ ابتدائي مراحل ميں تربيت عادتوں كے تبديل كرنے كى نسبت كہيں آسان ہے _ عادت كا تبديل كرنا اگرچہ ناممكن نہيں تا ہم اس كے ليے بہت زيادہ آگاہي، صبر ، حوصلہ اور كوشش كى ضرورت پڑتى ہے اور يہ سب تربيت كرنے والوں كے بس كى بات نہيں _

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

اصعب السياسيات نقل العادات

''مشكل ترين سياست لوگوں كى عادات كو تبديل كرنا ہے '' (غرر الحكم ص 181)

حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں:

للعادة على كلّ انسان سلطان

عادت انسان پر مسلط ہوجاتى ہے _ (غررالحكم _ص 580)

امير المؤمنين عليہ السلام فرماتے ہيں:

''العادة طبع ثان''

''عادت فطرت ثانيہ بن جاتى ہے '' _ (غررالحكم _ ص 26)

ترك عادت اس قدر مشكل ہے كہ اسے بہترين عبادتوں سے شمار كيا گيا ہے حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں :

''افضل العبادة غلبة السعادة''

'' برى عادت پر غلبہ پالينا افضل ترين عبادتوں ميں سے ہے '' ( غرر الحكم _ص 176)

بچے كو راہ كمال پر تربيت دينے كے ليے ايك مسئلہ يہ بھى اہم ہے كہ ماں باپ اور ديگر تمام مربيوں كے درميان فكرى اور عملى طور پر تربيت كے تمام پروگراموں ميں اور ان كے اجراء كى كيفيت ميں ہم آہنگى اور تفاہم موجود ہو _ اگر ماں باپ اور ديگر لوگ كہ جن كا بچے كى تربيت ميں عمل دخل ہو مثلاً دادا اور دادى و غيرہ ان كے درميان تربيتى پروگراموں ميں اتفاق اور ہم آہنگى موجود ہو اور ان كے اجرائيں وہ ايك دوسرے كے ساتھ تعاون كريں تو وہ مطلوب نتيجے تك پہنچ سكتے ہيں اور ايك اچھا اور ممتاز بچہ پروان چڑھا سكتے ہيں _ ليكن اگر ان ميں سے كوئي ايك بھى تربيت كے بارے بے اعتناء يا تربيتى امور ميں خلاف سليقہ ركھتا ہو تو مراد حاصل نہيں ہوسكتى كيونكنہ تربيت كے مسئلہ ميں مكمل يقين اور ہم آہنگى ضرورى ہے _

بچے كو اپنے فريضے سے آگاہى ہونا چاہيے _ جب ماں باپ كچھ اور كہہ رہے ہيں اور دادا دادى اور تو بچہ حيران و پريشان ہوجاتا ہے _ اسے سمجھ نہيں آتى كہ كيا كرے _ بالخصوص اگر ان ميں سے ہر كوئي اپنے نظريے پر زور دے رہا ہو _ ايسى صورت ميں نہ فقط يہ كہ اچھا نتيجہ نہيں نكلتا بلكہ ايسا ہوتا تربيت ميں نقص كا باعث بھى بن سكتا ہے _ تربيت كى بڑى مشكلات ميں سے يہ ہے كہ بچے كے بارے ميں باپ كچھ فيصلہ كرے اور ماں يا دادى اس ميں دخالت كركے اس كے برخلاف عمل كرے يا پھر اس كے الٹ مسئلہ ہو _ مربيوں كے درميان ايسے اتفاق اور ہم آہنگى كى ضرورت ہے كہ جس سے بچہ واضح طور پر يہ سمجھ سكے كہ اسے كيا كرنا ہے اور اس كى خلاف ورزى كا خيال اس كے ذہن ميں نہ آئے _

كبھى يوں ہوتا ہے كہ باپ ايك خوش اخلاق اور اچھا تربيت يافتہ بچہ پروان چڑھانا چاہتا ہے ليكن ماں بداخلاف اور بے تربيت ہوتى ہے اسے تربيت سے كوئي تعلق نہيں ہوتا اور كبھى معاملہ اس كے برعكس ہوتا ہے _ يہ مشكل بہت سے گھرانوں ميں نظر آتى ہے _ ايسے خاندانوں ميں پرورش پانے والے بچے عموماً اچھى اور صحيح تربيت كے حامل نہيں ہوتے كيونكہ ايك تربيت يافتہ اور صالح فرد كى تربيت اس كى ناصالح بيوى كے سبب بے اثر ہوجاتى ہے _ اس صورت ميں صحيح تربيت بہت مشكل امر بن جاتا ہے البتہ ايسى دشواريں كا يہ مطلب نہيں كہ ہم تربيت كى ذمہ دارى سے دست بردار ہوجائيں _

ايسى صورت ميں تربيت كى ذمہ دارى اور بھى ہواہوجاتى ہے _ چاہيے كہ ايسى صورت ميں اولاد كى تربيت كے بارے ميں زيادہ توجہ دى جائے _ اپنے اخلاق و كردار كى پورى طرح اصلاح كى جائے اور بچوں كى زيادہ ديكھ بھال سے كام ليا جائے اور ان سے زيادہ سے زيادہ مانسيت پيدا كى جائے _ اچھے كام اور خوش رفتارى كے ذريعے بچوں كى توجہ اپنى طرف جذب كى جائے اور ان كے ليے بہترين نمونہ عمل بن جايا جائے _ اپنے بچوں سے تفاہم پيدا كيا جائے _ اچھائي برائي اور نيكى بدى كا مفہوم ان كے سامنے كامل طور پر واضح كيا جائے _ ايسا عمل كيا جائے كہ بچہ خودبخود اچھے اور برے اخلاق كے درميا ن تميز كرسكے اور برائيوں سے متنفر ہو جائے _ اگر مرّبى عاقل ، تدبر، صابر، اور حوصلہ مند ہو تو كسى حد تك اپنے ہدف تك پہنچ سكتا ہے اور اپنى بيوى كى غلط تربيت اور بدآموزى كى اثرات زائل كرسكتا ہے _ بہر حال يہ ايك مشكل اور اہم كام ہے ليكن كے علاوہ چارہ بھى نہيں _

ايك دانشور كا قول ہے :

وہ خاندان كہ جس ميں ماں اور باپ كى تربيت كے بارے ميں ہم فكر ہيں اور اپنے كردار اور رفتار كو اس كے مطابق ڈھالتے ہيں تو بچے كے اعصاب كے ليے مناسب ماحول مہيا ہوجاتا ہے _ خاندان ايك ايسا چھوٹا سا معاشرہ ہے كہ جس ميں بچے كى اخلاقى خصوصيات ايك خاص صورت اختيار كرتى ہيں _ وہ خاندان كہ جس كے افراد ايك دوسرے سے دوستانہ برتاؤ كرتے ہيں اس كے بچے عموماً متين ، خوددار اور انصاف پسند ہوتے ہيں _ اس كے برعكس وہ گھر كہ جس ميں ماں باپ كے درميان روزروز كى نوك جھونك اورتو تكرار رہتى ہے اس كے بچے كج اخلاق ، بہانہ ساز اور غصيلے ہوتے ہيں

بشکريہ : مکارم شيرازي ڈاٹ او آر جي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان