• صارفین کی تعداد :
  • 3303
  • 8/13/2012
  • تاريخ :

جہيز کي ابتدا  اور اس کے احکام

جہیز

جہيز کے اس تباہ کن رسم کي تاريخ اتني ہي قديم ہے، جتني خود ہندوستان کي معاشرتي تمدني روايات، کتب تاريخ کے مطالعہ کرنے کے بعد يقين کے ساتھ يہ کہنا مشکل ہے کہ يہ رواج ہندوستاني سماج کا حصہ کب اور کس طرح بنا ، البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جہيز کي يہ قبيح رسم ہندوستان ميں دورِ قديم سے چلي آ رہي ہے، جس کا تعلق بالکليہ ہندو سماج سے ہے اور ہندوۆں کے جس قبيلے ميں اس رسم کو زيادہ فروغ حاصل ہوا اس کا نام ’’ويشيہ‘‘ ہے- لہٰذا اب يہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا باضابطہ آغاز يہيں سے ہوا-

جہيز اور اس کے احکام  

   مروّجہ جہيز کي دو قسميں ہيں ، پہلي يہ ہے کہ والدين اپني بيٹي کو کچھ ساز و سامان يا نقد روپيہ پيسہ وغيرہ خود اپني رضا سے بلا مطالبہ ديتے ہيں- دوسري يہ کہ لڑکے والے لڑکي والوں سے حسب خواہش نقد روپيہ اور ساز و سامان کي فرمائش کرتے ہيں اور لڑکي والوں کو خواہي نخواہي مجبوراً اسے پورا کرنا پڑتا ہے- جسے آج کے معاشرہ ميں جہيز کا خوبصورت نام ديا جاتا ہے- آئندہ سطور ميں ہم جن احکام کا ذکر کريں گے، ان کا تعلق اسي دوسري قسم سے ہے-

  اسلام ميں جہيز کا مطالبہ کرنا سخت حرام اور گناہ ہے، خواہ اس کي مقدار متعين کي گئي ہو يا نہيں ، شادي سے پہلے ہو يا شادي کے بعد، اس ليے کہ جہيز لينا رشوت کے مترادف ہے اور رشوت اسلام ميں ناجائز و حرام ہے- اگر ہم جہيز اور رشوت کے مقاصد پر نظر کرتے ہيں تو يہ معمہ خودبخود حل ہوتا نظر آتا ہے کہ جہيز رشوت کي ہي دوسري شکل ہے- يہاں رشوت کي تعريف اور اس کے مقاصد کو ذکر کرنا از حد ضروري ہے تاکہ مفہوم کے سمجھنے ميں کوئي دشواري نہ ہو-

تحرير: صابر رہبر مصباحي

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ماں باپ کے ساتھ نيک سلوک کرو