• صارفین کی تعداد :
  • 3521
  • 8/21/2012
  • تاريخ :

نکاح کے بدلے مال دينا اور لينا کيسا ہے  

جہیز

شادي کے وقت لڑکي کا نکاح کے بدلے شوہر کو کسي قسم کا مال و روپيہ دينا جائز نہيں ہے- شامي کتاب الہبہ ميں ہے:

’’جعلت المال علي نفسھا عوضا عن النکاح و في النکاح العوض لا يکون علي المراءۃ‘‘- (شامي کتاب الہبہ- ج8- ص508- باب الرجوع في الھبۃ)

يعني عورت اپنے نکاح کے عوض جو مال دے وہ باطل ہے اس ليے نکاح ميں عوض عورت پر نہيں (مرد پر ہے مہر کي شکل ميں ) واضح ہو کہ نکاح کے عوض مال لڑکي خود دے يا اس کے گھر والے سب اسي حکم ميں شامل ہوں گے-اسي طرح نکاح کے عوض مہر کے علاوہ لڑکي والے کو کچھ طلب کرنا رشوت اور باطل ہے- فتاويٰ عالم گيري ميں ہے:

’’خطب امراۃ في بيت اخيھا فابي ان يد فعھا حتي يد فع اليہ دراہم فد فع وتزوجہا ير جع بما رفع لانھا رشوۃ کما في القنيۃ‘‘- (فتاويٰ عالم گيري- ماخوذ از:ماہنامہ اشرفيہ اپريل 1989u- از: مفتي شريف الحق امجدي عليہ الرحمہ)يعني کسي کي بہن کو نکاح کا پيغام ديا، بھائي نے انکار کر ديا کہ جب تک کچھ روپيے نہيں دو گے يہ مجھے منظور نہيں- مرد نے ديا اور نکاح کر ليا(مرد نے) جو ديا ہے (اسے) واپس لے سکتا ہے ، اس ليے کہ يہ رشوت ہے ، ايسا ہي قنيہ ميں ہے-

   درمختار وردالمحتار ميں ہے:’’اءخذ اہل المراۃ شيئا عندالتسليم فللزوج ان يستردہ لانہ رشوۃ اي بان ابيٰ ان يسلمھا اخوھا اونحوہ حتي يا خذ شيئا وکذ الوابيٰ ان يزوجہا فللزوج الاسترد ادقائما او ہالکا لانہ رشوۃ ‘‘-   (ردالمحتار-ج4- ص307- باب المہر من کتاب النکاح )

يعني رخصتي کے وقت لڑکي والوں نے اگر کچھ ليا ہے تو شوہر کو اسے واپس لينے کا حق ہے کيوں کہ وہ رشوت ہے يعني اگر بھائي وغيرہ نے بغير کچھ ليے رخصت کرنے سے انکار کر ديا يا شادي کرنے سے انکار کر ديا تو شوہر کو حق حاصل ہے کہ وہ اسے واپس لے لے ، خواہ وہ مال موجود ہو يا ختم ہو گيا ہو، اس ليے کہ يہ رشوت ہے-

    يہي نہيں اگر رخصتي کے وقت لڑکي کے والد نے لڑکے سے کچھ طلب کيا اور اس نے بخوشي دے ديا تو يہ بھي حرام ہے- ’’ومن السعب ماياخذہ الصھر من الختن بطيب نفسہ‘‘-يعني خسر (سسر) داماد سے کچھ لے اگر چہ داماد بخوشي دے مال حرام ہے-

  ذرا سوچيے کہ يہاں معاملہ خوشي اور رضا کا ہے پھر بھي اس مال کا لينا حرام ہے، تو جبر کي صورت ميں بدرجۂ اوليٰ حرام ہو گا-

سامان جہيز کا مالک کون؟:-  شادي ميں جو ساز و سامان لڑکي والے اپني بيٹي کو ديتے ہيں خواہ وہ نقد روپيہ ہو يا زيور ، جواہرات کي شکل ميں ہو يا پھر گھريلو سامان کي صورت ميں ان سب کا مالک فقط عورت ہے- در مختار ميں ہے:’’کل احد يعلم ان الجہاز  للمراءۃ وانہ اذا طلقہا تاخذہ کلہ واذا ماتت يورث عنہا‘‘- ( رد المحتار- ج: 2- ص: 653)

يعني يہ سب کو معلوم ہے کہ جہيز لڑکي کي ملکيت ہے- جب اسے شوہر طلاق دے دے تو عورت جہيز کے تمام سامان واپس لے سکتي ہے اور اگر وہ عورت مر جائے تو اس کے وارثوں ميں تقسيم کيا جائے گا-

  لہٰذا مالک کي اجازت کے بغير اس کے سامان کو اپنے استعمال ميں لانا ناجائز و گناہ ہے اور حق العبد کے گناہ ميں مرتکب ہونا ہے- ليکن آج ايک نظر سماج کے بے غيرت نوجوانوں پر ڈاليے تو کس قدر وہ اس گناہ ميں ملوث نظر آ رہے ہيں اور بيوي کے لائے ہوئے جہيز ي سامان کو اپنا سمجھ کر اس کي اجازت کے بغير اس کے ذريعہ عيش و مستي کي بزم سجا رہے ہيں ، غالباً وہ يہ تصور کر بيٹھے ہيں کہ جب بيوي ہماري ہے تو اس کے لائے ہوئے سارے سامان بھي ہمارے ہي ہيں ، حالاں کہ يہ ان کا گمان فاسد ہے جو انہيں لاشعوري طور پر آخرت کے عذاب ميں مبتلا کر رہا ہے- قرآن مقدس ميں ہے:’’آپس ميں ايک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاۆ‘‘ (سورہ بقرہ- آيت188)

    حديث پاک ميں ہے: ’’عن ابي حرۃ الرقا شي عن عمہ قال قال رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم الا لا تظلموا الا لا يحل مال امري الابطيب نفس‘‘- (بہيقي ماخوذ از انوارالحديث- ص:327- رضا اکيڈمي ممبئي)

حضرت ابوحرہ رقاشي اپنے چچا سے روايت کرتے ہيں ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے فرمايا کہ خبردار کسي پر ظلم نہ کرو اور کان کھول کر سن لو کہ کسي شخص کا مال (تمہارے ليے) حلال نہيں ہو سکتا ، مگر وہ خوش دلي سے راضي ہو جائے-

    دوسري حديث ميں ہے:’’لايحل لاحد من اہل الجنۃ ان يدخل الجنۃ ولاحد قبلہ مظلمۃ‘‘- (عمدۃ القاري شرح صحيح البخاري- ج:2- ص:402- کتاب المظالم والغضب)

يعني کوئي بھي حقدار جنت، جنت ميں نہيں جا سکتا ہے جس پر کسي کا حق باقي ہو-

    لہٰذا جو لوگ جہيز کے سامان کو اپنا سمجھ کر بيوي کي اجازت کے بغير صرف کر رہے ہيں وہ نرے جہالت ميں بھٹک رہے ہيں- انہيں چاہيے کہ وہ اپنے کيے پر شرمندہ ہوں اور عفو و درگزر کرا کر اپني آخرت کو تباہ ہونے سے بچائيں اور آئندہ بھي اس سے بچتے رہيں-

     اس تعلق سے ہمارے سماج کا يہ منفي رويہ بھي ہے کہ اگر کبھي کوئي با شعور بيوي شوہر اور اس کے گھر والے کو اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کو بلا ضرورت خرچ کرنے سے منع کر دے تو اگر چہ اس کا يہ منع کرنا از راہ مشورہ ہي کيوں نہ ہو گھر سے باہر تک اس کے خلاف ہائے توبہ مچ جاتي ہے اور پھر بد چلن، بدمزاج اور بد اخلاق جيسے لفظوں کے ذريعہ اس کو مطعون کر کے اس کا جينا دوبھر کر ديا جاتا ہے، جو سراسر اس پر ظلم اور اصولِ اسلامي کے خلاف ہے-

تحرير: صابر رہبر مصباحي

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

ہمارے معاشرے ميں  جہيز ايک الميہ (حصّہ دوّم)