• صارفین کی تعداد :
  • 3399
  • 9/17/2012
  • تاريخ :

جہيز اور خانہ تباہي

جہیز اور خانہ تباہی

جہيز کے بارے ميں ايک غلط فہمي کا ازالہ  

جہيز کي تاريخ کا سياہ ورق  

نکاح کے بدلے مال دينا اور لينا کيسا ہے  

جہيز کي ابتدا  اور اس کے احکام

اسلام، جہيز اور سماج

 جہيز کي لعنت نے جہاں سماجي زندگي کو متاثر کيا ہے وہيں اجتماعي و انفرادي زندگي کے پرسکون نظام کو بھي درہم برہم کر  ديا ہے- اگر لڑکي اپنے ساتھ اپني حيثيت سے زيادہ جہيز لاتي ہے تو اس کے والدين مقروض ہو جاتے ہيں ، پھر وہ قرض سے سبکدوش ہونے کے ليے دن رات ايک کر کے اپنا چين و سکون برباد کر ديتے ہيں ، اور اگر لڑکي اپني حيثيت کے مطابق جہيز نہيں لاتي ہے يا وہ لڑکے والوں کے حسب منشا نہيں ہوتا تو پھر وہ لوگ کم جہيز لانے کي وجہ سے اس کو بے جا تشدد کا نشانہ بناتے ہيں اور اس پر طعن و تشنيع کي بوچھار کر کے اس کا جينا دوبھر کر ديتے ہيں- پھر يہيں سے نکلتي ہيں خانہ تباہي کي بھيانک راہيں- يا تو خود عورت گھر ميں آئے دن جھگڑا، تکرار ، مار، گالي اور لعن طعن سے تنگ آ کر اس بے رحم سماج سے نجات حاصل کرنے کے ليے خودکشي کا راستہ اختيار کر ليتي ہے يا پھر مطالبہ پورا نہ کرنے کي وجہ سے لڑکے والے اسے اپنے سنگ دل ہاتھوں سے اس کے وجود کو موت سے ہم آغوش کر ديتے ہيں ، جب کہ دونوں طريقے نہايت مذموم اور ظالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا اور اس کے رسول کي ناراضگي کا باعث ہيں- اگر لڑکي والے طاقت ور ہيں تو پھر ايسا گھناۆنا جرم کرنے والوں کے خلاف ان کا نوٹس لينا ايک فطري امر ہے- پھر شروع ہوتا ہے مقدمہ بازي کا ايک لامحدود سلسلہ جہاں مدعي حضرات مجرم کو تختہ دار پر چڑھانے کے ليے اپنا سب کچھ لٹانے پر تل جاتے ہيں اور ملزم خود کو قانون کے چنگل سے بچنے کے ليے رشوت کے طور پر لاکھوں روپے پاني کي طرح بہا ديتا ہے- اگر لڑکي والے کمزور ہيں تو پھر ان کے پاس اپني لاڈلي کے غم ميں آنسو بہانے اور دامن صبر کے مضبوطي سے تھامنے کے علاوہ کوئي راستہ نہيں ملتا- جب کہ قرآن مقدس ميں ہے:

’’ جس نے جان بوجھ کر کسي کا قتل کيا تو اس کا بدلہ جہنم ہے- جس ميں وہ ہميشہ رہيں گے اور اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اس کے ليے بنا رکھا ہے دردناک عذاب‘‘- (سورہ النساء- آيت 93)

    يہ کتنے افسوس کي بات ہے کہ شادي جو ايک پاکيزہ رسم ہے ، جس کا مقصد دو اجنبي خاندانوں کے درميان الفت ومحبت کے رشتے استوار کرنا اور مہذب طريقے سے ايک اجتماعي زندگي کا آغاز کرنا تھا، رسم جہيز نے اس خانہ آبادي کو خانہ بر بادي اور آپسي نفرت وعداوت ميں تبديل کر ديا- ايک شخص اپنے نازوں کي پلي لاڈلي کو ايک اجنبي کے حوالے يہ سوچ کر يہ کہ دونوں مل کر زندگي کي ايک نئي صبح کا آغاز کريں گے مگر چند سکوں کے بدلے اس کے ارمانوں پر پاني پھير دينا انسانيت کا کون سا تقاضا ہے- اس کا حکم نہ تو قرآن مقدس ميں ہے اور نہ ہي احاديث و آثار ميں- سرور دو عالم صلي اللہ عليہ و سلم ارشاد فرماتے ہيں : ’’ان اعظم النکاح برکۃ ايسرہ موءنۃ‘‘- (مشکوٰۃ شريف- ص:271- کتاب النکاح)

يعني سب سے بابرکت شادي وہ ہے جس کا بار کم تر ہو-

          ليکن آج شادي کا بوجھ اتنا بھاري ہو گيا ہے کہ اس کے تلے وقت کے بڑے بڑے سورما بھي اپني نام نہاد عزت و وقار کے ساتھ دبے ہوئے ہيں- اس بيہودہ رواج کي وجہ سے اکثر شادي کے وقت فريقين ميں تنازع کھڑا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات دروازے سے بارات بھي واپس ہو جاتي ہے- آج کے کچھ نئے ترقي يافتہ بے غيرت لوگوں نے لڑکي والوں سے جہيز حاصل کرنے کا ايک نيا طريقہ ڈھونڈ نکالا ہے- وہ يہ ہے کہ اگر لڑکي کے گھر والے بار بار دباۆ کے باوجود مطالبہ پورا نہيں کرتے تو وہ آخر کار دلہن کو ہي اس کے باپ کے گھر بٹھا ديتے ہيں اور عہد کر ليتے ہيں کہ جب تک ہميں مقررہ رقم نہيں مل جاتي ہم لڑکي کو اپنے گھر نہيں بلائيں گے، اس طرح سے دلہن سميت ان کے گھر والوں کو بھي ذہني و جسماني تناۆ ميں مبتلا کر ديتے ہيں- حالاں کہ يہ طريقہ بھي نہايت ہي مذموم ہے اگر خدا نخواستہ ايسي شادي شدہ لڑکياں شامتِ نفس سے کسي گناہ کا ارتکاب کر بيٹھتي ہيں تو اس کا گناہ اس کے روکنے والوں پر ہو گا- حديث شريف ميں ہے:’’عن انس بن مالک انَّ رسول اللّٰہ صلي اللّٰہ عليہ و سلم قال في التوراۃ مکتوب من بلغت ابنتہ اثنتي عشرۃ ولم يزوجھا فاصابت اثما فاثم ذالک عليہ‘‘- (مشکوٰۃ شريف- ص:271)

يعني جس کي لڑکي بارہ برس کي ہو جائے اور وہ اس کا نکاح نہ کرے پھر وہ کوئي گناہ کر جائے تو اس کا گناہ اس کے باپ پر ہو گا-  ليکن اگر روکنے والا باپ کے علاوہ ہو تو اس کا گناہ اسي پر ہو گا مگر اس طرح مظلوم لڑکياں يہ سوچ کر آمادۂ گناہ نہ ہو جائيں کہ اس حرکت کا عذاب ميرے سر نہيں آئے گا- وہ اس قابل ملامت گناہ کے ارتکاب کرنے کي وجہ سے مستحق عذاب ٹھہرے گي-

اس طرح سے کبھي کبھي نوبت طلاق تک کي آ جاتي ہے جس کي وجہ سے اجتماعي و انفرادي زندگي کا شيرازہ منتشر ہو کر رہ جاتا ہے-

تحرير: صابر رہبر مصباحي

شعبہ تحرير و پيشکش تبيان