• صارفین کی تعداد :
  • 4194
  • 12/16/2007
  • تاريخ :

فقيہ کي ولايت (1)

رز صورتي

اسلام ، انسانوں کو ھر طرح کي ذلت اور غلامي سے نجات دينے کے لئے اور انکے درميان عدالت بر قرار کرنے کے لئے آيا ھے ۔ ساتھ ھي ساتھ انکي مادي اور فطري ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ انکي روحي اور معنوي جنبوں سے بھي تربيت کرتا ھے تاکہ انساني سماج کي تعمير عدالت اور اخلاق کي بنيادوں پر ھو ۔

 

بات بالکل واضح  ھے کہ سماج ميں قانون کے اجرا اور حکومت کے بغير ھم اس مقصد تک نھيں پھونچ سکتے ۔ اسي لئے پيغمبر اسلام (ص) نے بھي مدينہ کي طرف ھجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے حکومت تشکيل دي تھي ۔ ھمارے ائمہ معصومين(ع) بھي اسي کوشش ميں رھے کہ سماج کي رھبري کي باگڈور اپنے ھاتھوں ميں رکھيں ۔ حضرت علي (ع)نے جو خط مالک اشتر  کي حکومت کے لئے لکھا تھا ، اس ميں ذکر کئے گئے دستور العمل کے ذريعے مالک اشتر کو حکم ديا تھا کہ ايک ديني حکومت کے توسط سے عوام کي فکري ، اقتصادي اور سماجي حالت کو بھتر اور مستحکم کيا جائے اور ايک ايسا سماج وجود ميں لايا جائے جو ايک ايسا نمونہ ( ideal) ھو جسے خدا بھي پسند کرتا ھو ۔

 

ھميں ايک بارپھر اپنے دين کے مقاصد اور اسکے سياسي اھداف پر نظر ڈالني چاھئے تاکہ حقيقت سے اور قريب ھوجائيں اور اسکے لئے مندرجہ ذيل نکات پر توجہ ضروري ہے :

 

۱۔ آسماني اديان اور خدا کي طرف سے بھيجے گئے پيغمبران کے مقاصد ۔

 

۲۔ پيغمبر اور امام اجتماعي قدرت اور اسلامي حکومت کے لئے کوشش کرتے تھے تاکہ خدا کے احکام کو بھتر طريقے سے اجراء کر سکيں ۔

 

۳۔ پيغمبر اور ائمہ معصومين(ع) کي راہ انکے بعد بھي جاري رہ سکتي ھے ۔

 

۴۔ دين اسلام صرف پيغمبر (ص)،ائمہ معصومين (ع)اور انکے زمانہ کے لوگوں سے ہي مخصوص نھيں تھا ۔

 

۵۔ امام زمانہ (ع) کي غيبت کے زمانہ ميں بھي وھي راہ وروش اور پروگرام جاري رھنا چاھئے جو خود پيغمبر(ص) اور ائمہ معصومين (ع)کے زمانہ ميں جاري تھا ۔

 

ان نکات پر توجہ کرنے کے بعد اس ميں کوئي شک باقي نھيں رہ جاتا کہ ھمارے زمانہ ميں بھي اسلامي حکومت قائم ھوني چاھئے تاکہ خدا کا دين سماج ميں رواج پيدا کرسکے ۔ اس مسئلہ کو ثابت کرنے کے لئے کسي دليل کي ضرورت نھيں ھے ۔