برسوں کے بعد
برسوں کے بعد ديکھا شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پرنام تھا بھلا سا
ابرو کچھے کچھے سے آنکھيں جھکي جھکي سي
باتيں رکي رکي سي، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ
خوابوں ميں خواب اس کے يادوں ميں ياد اس کي
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے کہ رتجگا سا
پہلے بھي لوگ آئے کتنے ہي زندگي ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلي محبتوں نے وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
فراز احمد فراز
متعلقہ تحریریں:
اب کے ہم بچھڑے
اک سنگ
اس سے پہلے
خوابوں کو باتيں کرنے دو
ديکھو جيسے ميري آنکھيں
رنجش ہي
اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
امامت
يہ عالم شوق
کٹھن ہے راہ
عقل و دل (نظم)