• صارفین کی تعداد :
  • 3971
  • 6/21/2008
  • تاريخ :

غصے اور جرات  سے بهرپورانسان  کی یاد(ڈاکٹر علی شریعتی)

ڈاکٹر علی شریعتی

جب وہ فرانس سے واپس ( ایران)  آیا تو سب یہی سوچ رہے تھے کہ پتہ نہیں اس میں کتنی تبدیلی آ گئی ہو گی ۔ فارسی مشکل  سے بولتا ہو گا ؟ کیا اس کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر پھر دوپہر کا کھانا کھا  پائیں گے یا نہیں  ؟ لیکن جب وہ گاڑی سے اترا تو وہی گیوہ ( گرمیوں میں پہنا جانے والا ہلکا سوتی کا جوتا)  اس کے پاؤں میں تھا.... ۔ تمام وہم و گمان دور ہو گۓ ۔

 

کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں مسلمان اسٹوڈنٹس میں خود اعتمادی اور بھی بڑھ جاتی تھی ۔ وہی طالب علم جو اپنی  توہین کے ڈر سے  نماز مخفیانہ پڑھتے تھے  اب ڈاکٹر  کے آنے کے بعد بڑے فخر کے  ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے لگے تھے ۔

 

ان کے  دوستوں اور دشمنوں دونوں نے ہی ان کے حق میں ناانصافی کی کیونکہ ہر کوئی ان کو اپنے گروہ میں شامل کرنا چاہتا تھا ۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ ہم میں نہیں ہیں (شہید ہو گۓ ہیں ) وہ  حسین (ع) کے نقش قدم پر چلے جو زندہ ہیں ان کو چاہیے  کہ وہ حضرت زینب (س)  کے  نقش قدم پر چلیں وگرنہ یزید کے ساتھیوں میں شمار ہونگے ۔

 

اس کی  یہ خواہش تھی کہ  اسے حضرت زینب (س) کے پہلو میں دفن کیا جاۓ ۔ لیکن کھی انہوں  نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ  ان کی تقدیر میں ایسا ہو گی۔

 

انہوں نے وصیت کی  تھی کہ ان کو حسینیه ارشاد ہال ( تالار حسینیه ارشاد) کے پیچھے دفن کیا جاۓ لیکن ساواک ( دور شاہ کی خفیہ ایجنسی ) نے ان کا جسد ایران لانے کی اجازت نہیں دی ۔

ڈاکٹر علی شریعتی(تشییع جنازه)

 

ان کے  دوست ان  کے  جسد خاکی  کو لندن سے دمشق لے گۓ اور زینبیہ کے نزدیک ایک قبرستان میں ان کو سپرد خاک کیا گیا ۔ ان کی نماز جنازہ  امام  موسی صدر نے ادا  کی ۔

 

اس دور میں شاید ہی کوئی جوان ایسا ہو جس کی  زندگی پر ڈاکٹر مرحوم کی شخصیت اثرانداز نہ ہوئی ہو لیکن کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ کی زندگی پر اثر انداز ہوئے ۔ ان میں ایک نام ژرژگورویچ  کا  ہے جو سوشیالوجی کے پروفیسر تھے ۔ یہاں تک کہ ان کے کلاس فیلوز ان کو گورویچولوجیسٹ کے لقب سے پکارتے  تھے ۔ آپ کو اس پروفیسر کا ہم خیا ل تصور کرتے تھے اور اس استاد کا بھی مذاق اڑاتے تھے مگر آپ اس استاد کے پیچیدہ مگر پرارزش نظریات کو سمجھتے تھے اور اسے ایک عظیم شخصیت کا  درجہ دیتے  تھے ۔

مترجم : آنا حمیدی