• صارفین کی تعداد :
  • 1251
  • 11/15/2010
  • تاريخ :

سُرخ ٹوپی

کتاب

اس نے کپڑا نچوڑ کر الگنی پر لٹکایا اور منڈیر پر بیٹھے ہوئے کوّے کو دیکھ کر بولی ۔’’ تو جل مرے موئے کالے کلوٹے بھتنے، کائیں کائیں سے میرا مغز چاٹ لیتا ہے۔ گاؤں بھر میں کیا یہی منڈیر اچھی لگتی ہے تجھے ؟ ’’ اور اس نے اپنا پرانا جوتا پوری قوت سے منڈیر پر پھینکا۔ کوا کائیں کائیں کرتا پَر پھڑپھڑاتا اوپر اٹھ گیا اور پھر نمبردار کے بالا خانے کا چکر کاٹ کر اس درے کی طرف اڑ گیا جدھر سے گاؤں کے نوجوان جو فوج اور پولیس میں ملازم تھے، اپنے بڑے بڑے بستر کاندھوں پر دھرے اور ہاتھوں میں جلیبیوں اور پیڑوں کی پوٹلیاں لٹکائے سال سال بھر بعد اپنی ماؤں ،بہنوں اور خدا جانے کس کس سے ملنے آتے ہیں۔

ایک اور کوّا اُڑتا ہوا آیا اور منڈیر کی بجائے الگنی پر بیٹھ گیا ۔ دو ایک بار جھولا تو دیوار میں دھنسی ہوئی چیڑکی کمزور لکڑی ڈھیلی ہو گئی، باہر کھسکی اور الگنی کپڑے سمیت زمین پر آ رہی کوّا نمبردار کے بالاخانے کا چکر کاٹ کر اسی درّے کی طرف اڑ گیا۔

اِس نے کو ّے کی بارہ پشتوں کو ایسے ایسے خطاب دیئے کہ پڑوسنیں چھتوں پر چڑھ آئیں ۔ ادھیڑ عمر کی ایک بنی ٹھنی بیوہ ناک پر انگلی رکھ کر بولی۔‘‘ ہے ہے کیا غضب ہو گیا کیا قیامت ٹوٹ پڑی ۔ کوّے نے الگنی گرا دی؟ قربان جاؤں، میں سمجھی بہو رانی کو بچھو نے کاٹ لیا ۔ اے یہ کوؤں کی کائیں کائیں بہت اچھا شگون ہے۔ یاد رکھو، تیرا سپاہی آج کل آیا کہ آیا۔‘‘


متعلقہ تحريريں:

اپنے دکھ مجھے دے دو

آگ کا دریا

بڈھا

چڑيل

روشنی

کپاس کا پھول

کپاس کا پھول (حصّہ دوّم)

کپاس کا پھول (حصّہ سوّم)

کپاس کا پهول (حصّہ چهارم)

کپاس کا پهول (حصّہ پنجم)