• صارفین کی تعداد :
  • 1564
  • 3/13/2011
  • تاريخ :

صوبہ سرحد میں بچوں کا ادب

بچوں کا ادب

بچے ہمارے زندگی کا اہم جزو اور ہمارے معاشرے کا ایک اہم طبقہ ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعلیم و تربیت سے شروع دن سے مسلسل بے اعتنائی برتی جا رہی ہے۔ حالانکہ انہی بچوں نے کل کے باپ کی صورت اختیار کرنی ہے۔ اس لیے ان کی صحت، تعلیم اور اخلاقی و جسمانی تربیت و نشو و نما وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ جس طرح ادب کی آج تک کسی نے جامع تعریف نہیں کی ہے۔ اس طرح بچوں کے ادب کی تعریف تو اور بھی مشکل بن جاتی ہے۔ تعریف سے پہلے یہاں ایک معروف نقاد ہنری اسٹیل کومیگر کی ایک عبارت درج کی جاتی ہے جس میں انہوں نے بچوں کے ادب کی تشریح کی ہے۔

"ہم بچوں کے ادب سے کیا سمجھتے ہیں؟ کیا یہ وہی ادب ہے جو خاص بچوں کے لئے لکھا گیا ہو۔ جیسے پریوں کی عجیب و غریب کہانیاں، ننھی منی میں، پند و نصائح اور آداب و اخلاق کی خشک کتابیں یا سکول اور کھیل کے میدان سے متعلق قصے اور دور دراز ملکوں کی داستانیں۔ یہ سب یقیناً یہی ہیں۔ لیکن یہ ادب اس سے بھی وسیع ہے۔ بچوں کا یہ ادب بڑوں کا وہ سارا سرمایہ ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے اور بلا شرکت غیرے اس پر قابض ہوگئے ہیں اور فی الحقیقت یہی ان کا اپنا ادب ہے کیونکہ نہ والدین، نہ معلم، نہ مبلغ نہ مصنف بلکہ خود بچے یہ تعین کرتے ہیں کہ ادب کیا ہے؟

بچوں کے ادب کے حدود و قیود متعین کرتے ہوئے ہم اس کی تعریف یوں کریں گے کہ وہ ادب جو بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق ہو، ان کی دلچسپی کا باعث ہو، ان کی ذہنی و اخلاقی نشوونما کرے، ان میں شوق، تجسس اور حرکت و عمل پیدا کرے اور ان کے تجربات کو وسعت دے، بچوں کا ادب کہلاتا ہے۔

ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

"بچوں کا ادب ایسی تحریروں پر مشتمل ہوتا ہے جن میں دوڑ پیچھے کی طرف کے مصداق ادیب بچہ بن کر بچوں کے لیے لکھتا ہے"۔

بچوں کے ادب میں دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے۔ اول اسلوب اور دوم پیشکش۔ اسلوب کے لحاظ سے کتابت، تزئین و آرائش، کاغذ، طباعت اور جلد بندی وغیرہ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بچوں کے ادب کے موضوعات، بچوں کی دلچسپی اور عمر کے لحاظ سے متعین کیے جاتے ہیں۔ اگر بچوں کی دلچسپی ان کی عمر کے مطابق جانوروں اور پرندوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مہم جوئی اور معرکہ آرائی کی پرتجسس کہانیاں بھی بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں۔ اس طرح کے تخیل آمیز قصوں میں حیرت، مافوق الفطرت عناصر اور جستجو سے بھر پور مقامات کی کہانیوں میں بچہ حکایت کے مرکزی کردار کو اپنا ہیرو سمجھنے لگتا ہے اور اس جیسی خصوصیات اپناتا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بچوں کا ادب لکھتے وقت الفاظ آساں ہوتا کہ انداز بیان میں کوئی وقت نہ ہو اور مفہوم واضح ہوکر سامنے آسکے۔ جس سے نئے فکری راستے کھولنے میں سہولت ہو۔ لیکن اس میں بھی رنگینی اور حسن کاری کا ہونا لازمی ہے۔ حسن و رعنائی کی وجہ سے اگر بچے کی راہ میں کوئی مشکل لفظ بھی آئے تو بچہ اسے با آسانی قبول کر لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر انداز بیان بھی شگفتہ ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات بن جاتی ہے۔

اردو ادب میں بچوں کے ادب کی ابتدا میں جس کتاب کو اہمیت حاصل ہے وہ "خالق باری" ہے۔

گیارھویں صدی ہجری میں دہلی کے دوآبے میں لکھی گئی یہ منظوم کتاب نو عمر بچوں کے لئے لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد نظیر اکبر آبادی، مولوی نذیر احمد، مولانا آزاد، مولانا حالی نے نثر میں مولانا اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال، خوشی محمد ناظر، احسن مارہروی اور صوفی تبسم و غیرہ نے نظم میں بچوں کے لئے بہت کچھ تخلیق کیا۔

تعلیمی لحاظ سے بچوں کے لئے بہترین کتابیں پنجاب میں لکھی گئیں اور حافظ محمود شیرانی کے مطابق پنجاب میں بچوں اور غیر تعلیم یافتہ گروہ کی تعلیم کا انتظام اور مقامات سے بہتر تھا۔

تقسیم کے بعد مرزا ادیب، اے حمید، الطاف فاطمہ اور ثاقبہ رحیم الدین وغیرہ نے بچوں کے لئے اتنا لکھا جو شاید انہوں نے بڑوں کے لئے بھی نہ لکھا ہو۔

لاتعداد کتابیں تحریر کی گئیں باقاعدہ رسالے منظر عام پر آئے اور اخبارات و جرائد نے بچوں کے لئے صفحات شائع کرانے کی روایت ڈالی۔ ان میں غلام عباس کی چاند تارا، صوفی تبسم کی جھولنے اور ٹوٹ بٹوٹ، ابن انشاء کی بلو کا بستہ اور قصہ دم کٹے چوہے کا اور محشر بدایونی کی سائنس نامہ نے کافی مقبولیت و شہرت حاصل کی۔ ماہنامہ جرائد میں پھول، ٹوٹ بٹوٹ، آنکھ مچولی، بچوں کی باجی، بچوں کا رسالہ، انوکھی کہانیاں، نونہال، شاہین ڈائجسٹ اور تعلیم و تربیت کے علاوہ ہفت روزہ اخبار جہاں، روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ مشرق کے بچوں کے صفحات نے بچوں کی ذہنی و فکری نشوونما کی آبیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔

گوہر رحمان نوید


متعلقہ تحریریں :

عاشق ہر جائی (2)

عاشق ہر جائی (1)

سلیمی

وصال

چاند اور تارے