• صارفین کی تعداد :
  • 3043
  • 8/22/2011
  • تاريخ :

اسلام ميں عورت کا حق وراثت ( حصّہ سوّم )

سوالیہ نشان

کلالہ کے مالِ وراثت ميں حق

کلالہ اس ميت کو کہتے ہيں جس کے والدين ہوں نہ اولاد- ايسي عورت يا مرد فوت ہو جائے اور اس کے پيچھے نہ اس کا باپ ہو، نہ بيٹا، تو اس کي جائيداد کي تقسيم کي تين صورتيں ہو سکتي ہيں :

اس کے اعياني يعني سگے بھائي بہن ہوں -

علاتي بھائي بہن ہوں، يعني باپ ايک اور مائيں الگ الگ ہوں-

اخيافي بھائي بہن ہوں، ماں ايک اور باپ عليحدہ عليحدہ ہوں-

ان تينوں کے احکام الگ الگ ہيں :

(1) اگر پہلي صورت يعني سگے بھائي بہن موجود ہيں تو حکم ديا :

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَآ إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ.

’’لوگ آپ سے فتويٰ (يعني شرعي حکم) دريافت کرتے ہيں- فرما ديجئے کہ اللہ تمہيں (بغير اولاد اور بغير والدين کے فوت ہونے والے) کلالہ (کي وراثت) کے بارے ميں يہ حکم ديتا ہے کہ اگر کوئي ايسا شخص فوت ہو جائے جو بے اولاد ہو مگر اس کي ايک بہن ہو تو اس کے لئے اس (مال) کا آدھا (حصہ) ہے جو اس نے چھوڑا ہے اور (اگر اس کے برعکس بہن کلالہ ہو تو اس کے مرنے کي صورت ميں اس کا) بھائي اس (بہن) کا وارث (کامل) ہو گا اگر اس (بہن) کي کوئي اولاد نہ ہو-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 176

ظاہرہے کہ اگر بہنيں دو سے زيادہ ہوں تو وہ سب اس دوتہائي ميں برابر کي شريک ہوں گي-

(2) دوسري صورت يہ ہے کہ علاتي بھائي بہن ہوں، يعني باپ ايک ہو اور مائيں الگ الگ ہوں تو اس صورت ميں حکم ديا :

وَإِن كَانُواْ إِخْوَةً رِّجَالاً وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

’’اور اگر بہت سے بھائي بہن ہوں تو پھر (تقسيم يوں ہو گي کہ) ايک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 176

يعني جيسے اولاد کے درميان ترکے کي تقسيم کا اُصول ہے- - - ايک لڑکے کا حصہ دو لڑکيوں کے برابر- - - وہي يہاں بھي استعمال ہو گا-

(3) تيسري اور آخري صورت يہ ہے کہ اخيافي بھائي بہن ہوں يعني عورت نے ايک خاوند کي وفات کے بعد کسي دوسرے شخص سے نکاح کر ليا اور دونوں سے اولاد ہو- اگر ان ميں سے کوئي مرجائے اور کلالہ ہو :

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُواْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ.

’’اور اگر کسي ايسے مرد يا عورت کي وراثت تقسيم کي جا رہي ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئي اولاد اور اس کا ماں کي طرف سے ايک بھائي يا ايک بہن ہو (يعني اخيافي بھائي يا بہن) تو ان دونوں ميں سے ہر ايک کے لئے چھٹا حصہ ہے پھر اگر وہ بھائي بہن ايک سے زيادہ ہوں تو سب ايک تہائي ميں شريک ہوں گے (يہ تقسيم بھي) اس وصيت کے بعد (ہو گي) جو (وارثوں کو) نقصان پہنچائے بغير کي گئي ہو يا قرض (کي ادائيگي) کے بعد-‘‘

القرآن، النساء، 4 : 12

يعني کلالہ کي وراثت کي تقسيم کے احکام ميں بھي عورت کو حق وراثت کا مستحق قرار ديا گيا اور اس کے واضح احکام بيان کئے گئے جن کا خلاصہ ہم درج ذيل پانچ اُصولوں ميں بيان کر سکتے ہيں :

(1) جہاں صرف اولاد ہو، اورکوئي دوسرا وارث نہ ہو، اور اولاد ميں بھي تمام لڑکے ہوں، تو ترکہ ان لڑکوں ميں بحصہ مساوي تقسيم ہو گا- لڑکے اور لڑکياں دونوں ہوں تو ايک لڑکے کو دو لڑکيوں کے برابر حصہ ملے گا، اور اسي اُصول پر تمام ترکہ تقسيم ہو گا اگر لڑکا کوئي نہ ہو، صرف ايک لڑکي ہو، تو اسے ترکے کا نصف ملے گا، اور اگر دو يا دو سے زيادہ لڑکياں ہوں، تواُنہيں دو تہائي ملے گا-

(2) جہاں اولاد ہو يا نہ ہو، ليکن ماں باپ موجود ہوں- اگر اولاد ہو تو ماں باپ ميں سے ہر ايک کو ترکے کا چھٹا حصہ اور باقي اولاد ميں نمبر (1) کے اُصول پر تقسيم ہو گا- اگر اولاد نہ ہو تو ماں کو ايک تہائي اور باقي دو تہائي باپ کو-

(3) اولاد نہ ہو، ليکن بھائي بہن ہوں، تو ماں کو ايک تہائي کي جگہ چھٹا حصہ ملے گا- يہاں پھر اختلاف ہے کہ ان بھائي بہنوں کو کتنا ملے گا- بعض کے نزديک ماں کو ايک چھٹا حصہ ملے گا، دوسرا چھٹا ان بھائي بہنوں ميں تقسيم ہو گا، اور باپ کو حسب سابق بقيہ دو تہائي- بعض کے نزديک يہاں بھي کلالہ کا اُصول جاري ہو گا، يعني اگر ايک بھائي يا ايک بہن ہے، تو اسے چھٹا حصہ، ماں کو چھٹا حصہ، اور باپ کو دو تہائي- اگر بھائي بہن ايک سے زيادہ ہوں تو ان سب کو ايک تہائي، ماں کو چھٹا حصہ اور باقي نصف باپ کو-

(4) زوجين کي صورت ميں، اگر بيوي اولاد چھوڑ کر مرے تو خاوند کو ترکے کا چوتھائي اور باقي تين چوتھائي اولاد ميں نمبر (1) کے اُصول پر تقسيم ہو گا- اگر اولاد نہ ہو، تو خاوند کو نصف اور بقيہ دوسرے رشتے داروں کو اُوپر کے قواعد کي رو سے- اگر خاوند اولاد چھوڑ کر مرے تو بيوي کا آٹھواں حصہ ہے- اگر اولاد نہ ہو، تو چوتھا اور بقيہ ترکہ دوسرے رشتہ داروں ميں تقسيم ہو گا-

(5) کلالہ جہاں اعياني يا علاتي يا اخيافي بھائي بہن ہوں جيسے کہ اُوپر بيان ہوا- تقسيم ميں يہ ترتيب مدنظر رکھي جائے گي- سب سے پہلے خاوند يا بيوي کو حصہ ملے گا، پھر والدين کو اور پھر اولاد کو- اگر اولاد نہ ہو يا اولاد يا والدين دونوں ميں سے کوئي بھي موجود نہ ہو، تو سب سے آخر ميں بھائي بہن حق دار ہوں گے-

شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

خواتين کا اسلامي تشخص اور اُس کے تقاضے

خواتين پر مغرب کا ظلم اور خيانت

عورت کا مقام و مرتبہ ( حصّہ چهارم)

عورت کا مقام و مرتبہ (تيسرا حصّہ)

عورت کا مقام و مرتبہ (دوسرا حصّہ)