• صارفین کی تعداد :
  • 3474
  • 11/21/2011
  • تاريخ :

عورت اور ترقي  (حصّہ ششم)

حجاب والی خاتون

امريکہ ميں عورت

عالمي ذرائع ابلاغ امريکي عورت کي جو تصوير آج کل پيش کررہے ہيں، چند دہائياں قبل امريکي سماج ميں عورت کا يہ روپ ہر گزنہ تھا- جنگ عظيم دوم کے بعد امريکہ ميں زبردست تحريک شروع ہوئي کہ عورتوں کو کارخانوں اور دفتروں کي ملازمت سے نکال کر واپس خانہ داري کے امور کي طرف راغب کيا جائے- امريکي دانشوروں نے عورت کے لئے ممتا کے کردار کو نہايت قابل احترام بناکر پيش کيا اور کہا کہ خانگي معاملات کو ان کي پہلي ترجيح ہونا چاہئے- 1950ء کي دہائي ميں امريکہ ميں امور خانہ داري پر اس قدر زور ديا گيا کہ اسے بعد کے مورخ Ultra-domesticity يعني 'بے تحاشا خانہ داري' کا عشرہ کہہ کر پکارنے لگے، اور يہ بات بھي حيران کن ہے کہ يہي دور امريکي معاشرے کي خوشحالي اور معاشي ترقي کے اعتبار سے 'زرّيں دور' خيال کيا جاتا ہے-

آج امريکہ کے سليم الطبع دانشور جو مادر پدر آزاد نسل کے رويے سے بے حد پريشان ہيں، وہ 1950ء کي دہائي کو امريکي معاشرے کے لئے ماڈل (نمونہ) قرار ديتے ہيں- ان کا فلسفہ يہي ہے کہ گھر عورت کي جنت ہے، معاشرے کا اجتماعي سکون گھريلو ماحول کو پرسکون رکھے بغير ممکن نہيں ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے عورت کا گھر پر رہنا ضروري ہے- اس موضوع پر راقم کي نگاہ سے متعدد کتابيں گزري ہيں، مگر ان ميں سے ايک کتاب تو ايسي ہے کہ جسے پہلي دفعہ پڑھ کر حيرت و استعجاب کے ساتھ عجيب روحاني نشاط بھي محسوس ہوا- اس کتاب کا عنوان ہے:

"A Lesser life: The Myth of Women's Liberation" يعني "حيات کمتر: عورتوں کي آزادي کا واہمہ"

مذکورہ کتاب کي مصنفہ ايک امريکي خاتون سلويا اين ہيولٹ (Sylvia Ann Hewlett) ہيں جو برطانيہ کي کيمبرج يونيورسٹي اور امريکہ کي ہاروڈ يونيورسٹي سے اعزاز کے ساتھ تعليم مکمل کرچکي ہيں، وہ اکنامکس ميں پي ايچ ڈي ہيں اور امريکہ کي 'اکنامک پاليسي کونسل' کي ڈائريکٹر ہيں- نيو يارک ٹائمز ميں باقاعدگي سے لکھتي ہيں اور نصف درجن کتابوں کي مصنفہ ہيں- ميرے خيال ميں وہ پاکستان کي انساني حقوق کي علمبردار کسي بھي خاتون سے زيادہ تعليم يافتہ ہيں- عورتوں کي ملازمت کے حوالے سے پيش آمدہ مسائل ان کي دلچسپي کا خاص محور رہے ہيں وہ عورتوں کے حقوق کي علمبردار تو ہيں مگر 'تحريک آزادي نسواں' کے نظريات سے اختلاف رکھتي ہيں کيونکہ اس تحريک نے عورتوں کے مسائل حل کرنے کي بجائے ان ميں اضافہ کيا ہے- ہيولٹ نے اپني اس کتاب کے ايک باب کا عنوان رکھا ہے :

"Ultra-domesticity: The return to Hearth and Home" يعني "بے تحاشا خانہ داري؛ گھر کي طرف مراجعت"

يہ تمام کا تمام باب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے- يہاں اس سے چند ايک اقتباسات پيش کئے جاتے ہيں- ہيولٹ صا حبہ لکھتي ہيں:

"In the United States the picture was dramatically different. In the 1950's Women with college degrees in the child-bearing group had a lower rate of employment than any other group of Women, for the plain fact was Women with college degrees were ofien married to pros- perous men. And in America in the fifties, if the family could afford it, the wife stayed at home."

"رياست ہائے متحدہ کا منظر ڈرامائي طور پر مختلف تھا- 1950ء کي دہائي ميں کالجوں سے فارغ التحصيل وہ نوجوان خواتين جو بچے پيدا کرنے کي عمر رکھتي تھيں، ان ميں ملازمت کي شرح عورتوں کے کسي بھي دوسرے گروہ سے کم تھي- اس کي سادہ سي و جہ يہ تھي کہ کالجوں سے فارغ التحصيل عورتوں کي شادياں اکثر خوشحال مردوں سے ہوجاتي تھيں- پچاس کے عشرے ميں اگر خاندان اس بات کا متحمل ہوتا تو بيوي گھر ہي ميں رہتي تھي-" (صفحہ:153)

مندرجہ بالا انگريزي عبارت ميں"Stayed at home" کے الفاظ کو قرآن مجيد کے مقدس الفاظ (وَقَرْنَ فيْ بيوْتکنَّ) کي روشني ميں پڑھئے تو اسلام کي آفاقي صداقتوں کے تصور سے دل سرشار ہو جاتا ہے- ہيولٹ 1945ء اور اس کے بعد امريکي عورتوں کے حالات لکھتے ہوئے بيان کرتي ہيں:

"1945ء ميں امريکي عورتيں جتني بااختيار تھيں، اس سے پہلے اتني بااختيار کبھي نہ تھيں مگر جنگ عظيم دوم کے بعد آنے والے برسوں ميں ايک عجيب بات سامنے آئي- امريکہ جو کہ آزاد اور طاقتور عورتوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، اس پر خانہ داري کے جذبات عجيب طور پر حملہ آور ہوگئے- پھر يوں ہواکہ لاکھوں عورتوں نے ايسا طرز زندگي اپنا ليا جو مکمل طور پر خاندان اور گھر پر مرکوز تھا- ملک کي تاريخ ميں پہلي مرتبہ يہ ہوا کہ تعليم يافتہ عورتوں سے يہ توقع کي جاتي اور ان کي حوصلہ افزائي کي جاتي تھي کہ وہ اپني زندگي کے بہترين (Prime) سال اور اپني بہترين توانائياں گھريلو کاموں اور ممتا کا کردار نبھانے پر صرف کريں-

ما بعد جنگ کے يہ سال عجيب رجحان کے حامل تھے- 1950ء کي دہائي ايک عجب دور تھا، اس ميں يوں ہوا کہ عورتوں نے پہلے سے نسبتاً چھوٹي عمر ميں شادياں کرنا اور بچے پيدا کرنا شروع کرديے، وہ اپني تعليم اور ملازمت کو بھي درميان ميں چھوڑ کر ايسا کرنے لگيں- 1920ء اور 1930ء کي دہائيوں ميں امريکي عورتوں کي شادي کرنے کي اوسط عمر 23 تھي، جو 1950ء ميں کم ہوکر 20 رہ گئي- کسي بھي دوسرے ترقي يافتہ ملک ميں شادي کرنے کي صنفي طور پر اوسط عمر اس قدر کم نہ تھي- شرح پيدائش ميں بھي تيزي سے اضافہ ہوا- 1950ء کے آخري سالوں ميں امريکہ ميں شرح پيدائش ميں اضافہ يورپ کے مقابلے ميں دگنا جبکہ افريقہ اور انڈيا کے برابرتھا- يہ دور جو 1960ء تک رہا، اس ميں تيسرے بچے کي پيدائش کي شرح دوگني ہو گئي، چوتھے بچے کي شرح ميں تين گنا اضافہ ہوگيا- خانداني زندگي سے محبت کي اس دہائي ميں طلاق کي شرح کسي حد تک کم ہوگئي-" (صفحہ 152،153)

ہيولٹ کے درج ذيل الفاظ پڑھ کر تو شايد قارئين کو اعتبار نہ آئے- آخر يہ کيونکر ہوا کہ امريکي لڑکيوں نے تعليمي اعزازات پرمنگني کي انگوٹھيوں کو ترجيح دينا شروع کردي- ان کے اپنے الفاظ ميں ملاحظہ کيجئے :

"مختصراً يہ کہ ملازم پيشہ امريکي عورتيں (پروفيسر،وکلا، ڈاکٹر و غيرہ) کا تناسب 1950ء ميں جنگ سے قبل کے سالوں کي نسبت انتہائي کم تھا اور امريکي عورتوں کا ملازمت کو بطور پيشہ اختيار کرنے کا رجحان اپني يورپي بہنوں کي نسبت بہت ہي کم تھا- حتيٰ کہ امريکہ کے اعليٰ درجہ کے کالجوں ميں سب نوجوان طالبات کي آرزو يہ تھي کہ وہ گريجويشن کرتے ہي اعليٰ تعليمي اعزازات کي بجائے اپني انگليوں ميں منگني کي ہيرے کي انگوٹھي پہن سکيں- امريکي عورتيں عام طور پر بچوں کي پيدائش سے پہلے جاب کرتي تھيں ياپھر اس وقت جب ان کے بچے ہائي سکول ميں داخل ہوجاتے تھے، مگر وہ ملازمتوں کو شاذ و نادر ہي مستقل پيشہ بناتي تھيں- امريکہ ميں پچاس کي دہائي ميں عورتيں اپني بہترين توانائياں اور خانہ داري اور بچوں کي ديکھ بھال ميں خرچ کرتي تھيں-" (صفحہ:153)

تحرير :  محمد عطاء اللہ صديقي

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

عورت اور ترقي  (دوسرا حصّہ)