• صارفین کی تعداد :
  • 4120
  • 12/15/2011
  • تاريخ :

زمانہ جاہليت ميں عورتوں سے شادي کے طريقے

خاتون

اسلام سے قبل خواتين کي حالت  معاشرتي لحاظ سے بہت ابتر تھي - زندگي کے ہر ميدان ميں انہيں حقير تصوّر کيا جاتا تھا اور ہر طرح کے حقوق سے انہيں محروم رکھا جاتا تھا - مرد اور عورت زندگي کي گاڑي کے دو پہيۓ ہيں کہ جن کا ايک دوسرے  پر انحصار ہوتا ہے - اگر دونوں ميں سے کسي ايک کو بھي اس کي حيثيت کے مطابق اہميت اور قدر نہ ملے تو ايسے معاشرے کي گاڑي کا چلنا محال ہو جاتا ہے - عورت کو معاشرے ميں ذلت سمجھا جاتا تھا اور انہيں پيدا ہوتے ہي دفن کر ديا جاتا تھا - جو مرتبہ اسلام نے عورت کو ديا ہے اسلام سے قبل کے معاشرے ميں اس کا کوئي بھي تصور نہ تھا - بہت کم عورتيں ايسي ہونگي جو اپني جائيداد کي وارث اور آزاد ہونگي - زيادہ تر خواتين جائيداد اور مال و اسباب سے محروم ہوا کرتي تھيں -

انساني نسل کي بقاء کے ليے مرد اور عورت کا ملاپ  ضروري ہوتا ہے - اس کےجائز طريقے کے ليۓ شادي کا طريقہ رائج کيا گيا تاکہ مردو عورت ايک رشتے ميں منسلک رہ کر انساني نسل کي بقا کر سکيں -

اہل عرب کے ہاں شادي  اصول و ضوابط سے آزاد تھي جس ميں عورت کي عزت و عصمت اور عفت و تکريم کا کوئي تصور کارفرما نہ تھا- اہل عرب ميں شادي کے جو طريقے رائج تھے ان  پر ہم روشني ڈالنے کي کوشش کرتے ہيں -

(1) زواج البعولۃ

بدقسمتي سے اسلام سے قبل عرب معاشرے ميں عورت کو دوسرے مال و اسباب کي طرح سمجھا جاتا تھا اور اس کي خريد و فروخت کي جاتي تھي -

يہ نکاح عرب ميں بہت عام تھا- اس ميں يہ تھا کہ مرد ايک يا بہت سي عورتوں کا مالک ہوتا- بعولت (خاوند ہونا) سے مراد مرد کا ’’عورتيں جمع کرنا‘‘ ہوتا تھا- اس ميں عورت کي حيثيت عام مال و متاع جيسي ہوتي-

(2) زواج البدل

اسلام سے قبل عربوں ميں جاہليت حد سے زيادہ تھي اور وہ ايک مہذب معاشرے سے محروم تھے -  عورت کو اپنے خاندان يا گھر کي عزت تصور کرنے کي بجاۓ اسے مال مويشيوں کي طرح سمجھا جاتا اور ان کي سودے بازي عام تھي -

بدلے کي شادي، اس سے مراد دو بيويوں کا آپس ميں تبادلہ تھا- يعني دو مرد اپني اپني بيويوں کو ايک دوسرے سے بدل ليتے اور اس کا نہ عورت کو علم ہوتا، نہ اس کے قبول کرنے، مہر يا ايجاب کي ضرورت ہوتي- بس دوسرے کي بيوي پسند آنے پر ايک مختصر سي مجلس ميں يہ سب کچھ طے پاجاتا-

(3) نکاح متعہ

يہ نکاح بغير خطبہ، تقريب اور گواہوں کے ہوتا- عورت اور مرد آپس ميں کسي ايک مدت مقررہ تک ايک خاص مہر پر متفق ہو جاتے اور مدت مقررہ پوري ہوتے ہي نکاح خود بخود ختم ہو جاتا تھا طلاق کي ضرورت بھي نہيں پڑتي تھي اور اس نکاح کے نتيجے ميں پيدا ہونے والي اولاد ماں کي طرف منسوب ہوتي اسے باپ کا نام نہيں ديا جاتا تھا- اس طريقے  کو صحيح کرکے  اسلام کي آمد کے بعد بھي رائج کيا گيا ہے  -

پیشکش: شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحریریں:

عورت اور قديم معاشروں کي بدقسمتي ( حصّہ سوّم )