• صارفین کی تعداد :
  • 3084
  • 1/3/2012
  • تاريخ :

مساوات کے معني ميں غلط فہمي نہ ہو

خاتون

اسلام نے مساوات کي طرف خاص توجہ دي ہے اور ہميں بھي متوجہ ہونا چاہئے ليکن خيال رہے کہ بعض لوگ بے سوچے سمجھے جذبات ميں آ کر افراط و تفريط کا شکار ہوجاتے ہيں اور مرد و عورت کے روحاني و جسماني فرق اور ان کي ذمہ داريوں کے اختلاف تک سے انکار کر بيٹھتے ہيں-

ہم جس چيز کا چاہيں انکار کريں تاہم اس حقيقت کا انکار نہيں کرسکتے کہ دو صنفوں ميں جسماني اور روحاني طور پر بہت فرق ہے، مختلف کتابوں ميں اس کي تفصيلات موجود ہيں ،يہاں اس کي تکرار کي ضرورت نہيں، خلاصہ يہ کہ عورت وجودِ انساني کي پيدائش کا ظرف ہے، نونہالوں کا رشد اسي کے دامن ميں ہوتا ہے، جيسے وہ جسماني طور پر آنے والي نسلوں کي پيدائش ، تربيت اور پرورش کے لئے پيدا کي گئي ہے اسي طرح روحاني طور پر بھي اسے عواطف ، احساسات اور جذبات کا زيادہ حصہ ديا گيا ہے -

ان وسيع اختلافات کے باوجود کيا يہ کہا جا سکتا ہے کہ مرد عورت کو تمام حالات ميں ہم قدم ہونا چاہئے اور تمام کاموں ميں سو فيصد مساوي ہونا چاہئے ؟!

کيا عدالت اور مساوات کے حاميوں کو معاشرے کے تقاضوں کے حوالے سے بات کرنا چاہئے ؟ کيا يہ عدالت نہيں ہے کہ ہر شخص اپني ذمہ داري پوري کرے اور اپنے وجود کي نعمتوں اور خوبيوں سے فيض ياب ہو؟ اس لئے کيا عورت کا ايسے کاموں ميں دخل اندازي کرنا جو اس کي روح اورجسم سے مناسبت نہيں رکھتے ، خلاف ِعدالت نہيں ہے!

يہي وہ مقام ہے جہاں ہم ديکھتے ہيں کہ اسلام جو عدالت کا طرفدار ہے کئي ايک اجتماعي کاموں ميں سختي يا زيادہ دقتِ نظروالے کاموں مثلاً گھر کے معاملات کي سر پرستي و غيرہ ميں مرد کو مقدم رکھتا ہے اور معاونت و کمک کا مقام عورت کے سپرد کر ديتا ہے -

ايک گھر اور ايک معاشرے کو منتظم ہونے کي ضرورت ہوتي ہے اور نظم و ضبط کا آخري مرحلہ ايک ہي شخص کے ذريعہ انجام پانا چاہئے ورنہ کشمکش اور بے نظمي پيدا ہو گي-

اگر تمام تعصبات سے بے نياز ہو کر غور کيا جائے تو يہ واضح ہو جائے گا کہ مرد کي ساخت کے پيش نظر ضروري ہے کہ گھر کي سر پرستي اس کے ذمہ کي جائے اور عورت اس کي معاون ہو، اگرچہ کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشي اختيار کرنے پرمُصر ہيں-

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں:

خاتون کے سلسلے ميں اسلام کا طرز سلوک