• صارفین کی تعداد :
  • 2683
  • 1/4/2012
  • تاريخ :

خاتون کا کامل نمونہ

خاتون

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليھا چھے سات سال کي تھيں کہ شعب ابو طالب کا مرحلہ در پيش ہوا- صدر اسلام کي تاريخ ميں شعب ابو طالب بے حد سخت اور دشوار دور تھا- يعني پيغمبر اسلام کي تبليغ دين شروع ہو چکي تھي، آپ نے اپني نبوت کا اعلان کر ديا تھا- رفتہ رفتہ اہل مکہ بالخصوص نوجوان اور غلام، حضرت کے گرويدہ ہوتے جا رہے تھے اور اکابرين طاغوت کو محسوس ہونے لگا تھا کہ ان کے پاس سوائے اس کے کوئي چارہ نہيں کہ پيغمبر اور ان کے ارد گرد جمع افراد کو مکے سے باہر نکال ديا جائے- انہوں نے ايسا ہي کيا بھي- ان ميں سے بہتوں کو جن ميں درجنوں خاندان شامل تھے خود پيغمبر اسلام اور آپ کے قريبي رشتہ دار، خود حضرت ابو طالب جبکہ حضرت ابو طالب کا شمار بزرگوں ميں کيا جاتا تھا، بچے اور بوڑھے شامل تھے- سب کو مکے سے باہر نکال ديا- حضرت ابو طالب کے پاس ايک چھوٹا پہاڑي درہ تھا- کہہ ديا گيا کہ آپ لوگ وہيں چلے جائيں- مکہ ميں دن ميں تو دھوپ کي شکل ميں آگ برستي تھي ليکن رات کو کڑاکے کي سردي پڑتي تھي- يعني موسم ناقابل برداشت تھا- ان لوگوں نے اس بيابان ميں تين سال کاٹ دئے- کتني سختياں برداشت کيں اور بھوک کي شدت جھيلي! پيغمبر اسلام کي زندگي کا ايک انتہائي سخت دور يہي تھا- اس عرصے ميں پيغمبر اسلام کي ذمہ داري صرف لوگوں کي ہدايت و رہنمائي نہيں تھي بلکہ انہيں سختياں جھيلنے والے ان افراد کے سامنے بھي اپنے مشن کا دفاع کرنا تھا(کہ اس کے لئے اتني سختياں برداشت کرنا کوئي بڑي بات نہيں ہے)- ان دنوں جب پيغمبر اسلام انتہائي سخت حالات سے دوچار تھے حضرت ابو طالب، جو پيغمبر کے مددگار تھے اور ان سے پيغمبر اسلام کي اميديں وابستہ تھيں، اسي طرح حضرت خديجہ کبرا جو پيغمبر اسلام کي ايک اور بہت بڑي ياور و مددگار تھيں ايک ہفتے کے اندر دونوں دنيا سے رخصت ہو گئے-! يہ بڑا عجيب سانحہ ہے، پيغمبر بالکل بے سہارا اور تنہا ہو گئے-

فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا نے ايک مشير اور ايک ماں کا کردار ادا کيا پيغمبر اسلام کے لئے- يہي وجہ تھي کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليھا کے سلسلے کہا گيا کہ آپ تو "ام ابيھا" يعني اپنے والد کي ماں ہيں- يہ اسي وقت کي بات ہے- يعني ايک چھے سات سال کي بچي کا يہ کردار تھا- البتہ يہ بھي ہے کہ عرب ماحول ميں اور گرم علاقوں ميں لڑکيوں کا جسماني اور ذہني نشونما تيزي سے ہوتا ہے اس لحاظ سے آج کي دس بارہ سالہ لڑکي کے برابر رہي ہوں گي- تو يہ احساس ذمہ داري اور فرض شناسي ہے- کيا ايک نوجوان لڑکي کے لئے يہ چيز نمونہ عمل اور درس نہيں ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے مسائل کے تعلق سے جلد ہي اپني ذمہ داري کا احساس کرے، اپنے وجود ميں پنہاں جوش و نشاط کے اس خزانے کو بروئے کار لاتے ہوئے باپ کے چہرے سے جو اس وقت غالبا پچاس سال کا ہو چکا ہے اور بڑھاپے کي سمت گامزن ہے غم و غصے کے غبار کو جھاڑے، يہ ايک نوجوان لڑکي کے لئے کيا بہترين نمونہ نہيں ہے؟

خامنہ اي ڈاٹ آئي آر

پيشکش : شعبۂ تحرير و پيشکش تبيان


متعلقہ تحريريں :

دين اسلام عورتوں کے کونسے حقوق کا قائل ہے ؟