• صارفین کی تعداد :
  • 1790
  • 3/22/2012
  • تاريخ :

حديث غدير ولايت کا منہ بولتا ثبوت-14

بسم الله الرحمن الرحیم

دوسرا گواہ:

اميرالمؤمنين عليہ السلام نے بعض اشعار معاويہ کے نام خط ميں تحرير فرمائے ہيں جن ميں سے آپ (ع) غدير کے بارے ميں فرماتے ہيں:

وَ أَوْجَبَ لِى وِلايَتَهُ عَلَيْكُمْ

رَسُولُ اللّهِ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ (21)

پيعمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے غدير خم کے مقام پر ميرے لئے اپني ولايت و سرپرستي تم پر واجب کردي-

اب سوال يہ ہے کہ کون ہے جو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کي ہمارے لئے حديث کي امام عليہ السلام سے بہتر وضاحت و تفسير کردے؟ اور کہہ دے کہ غدير خم کے مقام پر رسول اللہ صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم کے کلام ميں لفظ "مولا" سے مراد کيا ہے؟ کيا اميرالمؤمنين عليہ السلام کي اس تشريح سے يہي بات سمجھ ميں نہيں آتي کہ غدير کے مقام پر اجتماع ميں شريک مسلمانوں نے لفظ "مولا" سے زعامت اور معاشرتي قيادت مراد لي تھي اور اس کے سوا کوئي بھي دوسري بات مسلمانوں کے ذہن ميں نہيں آئي چنانچہ حسان کي شاعري اور مسلمانوں کي تہنيت و تبريک اور بيعت سے بھي يہي بات سمجھي جاسکتي ہے-

***

تيسرا گواہ:

رسول اللہ (ص) نے "من کنت مولاہ" کا جملہ بيان کرنے سے قبل مسلمانوں سے يہ سوال اٹھايا:

"اَلَسْتُ أَولى بِكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ"، کيا ميں تمہاري نسبت تم سے زيادہ اہليت و شائستگي نہيں رکھتا اور کيا ميں تم پر تمہاري ذات سے زيادہ اختيار نہيں رکھتا؟ اور حاضرين نے کہا: بلي يا رسول الله!، کيوں نہيں اے رسول خدا (ص)!

رسول خدا (ص) نے لوگوں سے اپني بات کي تصديق کرانے کے فوراً بعد فرمايا: "مَنْ كُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِىٌّ مَولاهُ"، ميں جس کا مولا و سرپرست ہوں يہ علي (ع) اس کے مولا و سرپرست ہيں-

--------

مآخذ

21- مرحوم علاّمه امينى نے الغدير کي جلد2 کے ص25 سے ص30 تک ان اشعار کو 11 شيعہ اور 26 سني علماء کے اشعار کے ہمراہ نقل کيا ہے-