• صارفین کی تعداد :
  • 4720
  • 7/18/2012
  • تاريخ :

کپاس کي بائيو اقسام اور خطرات

کپاس کا پهول

رپورٹ کے مطابق بائيوٹيک کپاس کي پيداوار مقابلتاً 24 في صد زيادہ رہي اور ان کا منافع بھي دوسروں کے مقابلے ميں 50 في صد زيادہ تھا-

کپاس کي جينياتي طور تيار کي جانے والي نئي قسم  اپني زيادہ پيدوار اور بيماريوں کا مقابلہ کرنے کي بہتر صلاحيت کي بنا پربہت سے کاشت کاروں کي زندگيوں ميں مثبت تبديلي لاسکتي ہے- 

کئي ترقي پذيرممالک کي طرح بھارت ميں کھيتي باڑي عموماً چھوٹي سطح پر کي جاتي ہے-جرمني گيٹنگ گن يونيورسٹي کے ايک زرعي ماہر ماتيم کيم کا کہناہے کہ بھارت ميں ايسے کاشت کاروں کي تعداد لاکھوں ميں ہے جو صرف دو سے چار ايکٹر رقبے پر کپاس کاشت کرتے ہيں-

ان کا کہناہے چھوٹے کاشتکاروں کي اکثريت کو کيڑے مکوڑوں اور سونڈھي کے حملے کاسامنا کرنا پڑتا ہے-

سونڈھي امريکي کپاس کے ليے بھي ايک بڑا خطرہ ہے- امريکہ کي ايک بائيوٹيک اور بيجوں کي افزائش سے متعلق کمپني مونسانٹو نے جينياتي طورپر کپاس کا ايک ايسا پودا تيار کيا ہے جس کے اندرجراثيم کش اجزا خود پيدا کرتا ہے- يہ ايک طرح کا پروٹين ہے جسے بي ٹي آرگينک کہا جاتا ہے-

ماہرين کا کہناہے کہ بي ٹي ايک محفوظ جزو ہے جو عشروں سے کيڑے مکوڑوں کو قدرتي طريقے سے ہلاک کرنے کے ليے استعمال کيا جارہاہے-

دنيا بھر کے کاشت کار اس نئي ٹيکنالوجي ميں دلچسپي لے رہے ہيں- اور 75 في صد امريکي کپاس اور 90 في صد کپاس کي بھارتي ورائٹي  کے ليے بي ٹي کا استعمال کيا جارہاہے-

ليکن امريکہ کي واشنگٹن يونيورسٹي کے ايک سائنس دان گيلن سٹون کہتے ہيں کہ بي ٹي کے استعمال نے کئي نئے خدشات کو جنم ديا ہے-

ان کا کہناہے کہ بي ٹي کے صفات رکھنے والے بيچ روايتي بيجوں سے مہنگے ہوتے ہيں ، جس سے کاشت کاري کے اخراجات بڑھ جاتے ہيں اور چھوٹے کاشت کار قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہيں- اس کے نتيجے ميں خودکشيوں کے بھي کئي واقعات سامنے آرہے ہيں-

ليکن نيشنل اکيڈمي آف سائنسز ميں شائع ہونے والي ايک رپورٹ ميں متم قائم نے کہاہے کہ 2002ء سے 2008ء تک عرصے کے دوران کيے جانے والے ايک مطالعاتي جائزے کے مطابق  بي ٹي کپاس کاشت کرنے والے کسان کپاس کي روايتي ورائٹي بيجنے والے کاشت کاروں کے مقابلے ميں فائدے ميں رہے-

رپورٹ کے مطابق  بائيوٹيک کپاس کي پيداوار مقابلتاً 24 في صد زيادہ رہي اور ان کا منافع بھي دوسروں کے مقابلے ميں 50 في صد زيادہ تھا-

واشنگٹن يونيورسٹي کے گيلن سٹون يہ تسليم کرتے ہيں کہ بي ٹي کپاس کي پيداوار کپاس کي روايتي اقسام سے زيادہ ہوتي ہے-

ليکن وہ کہتے ہيں کہ سونڈھي کے مقابلے ميں اب دوسرے کيڑے مکوڑے کپاس کي فصل کے ليے زيادہ بڑا چيلنج بنتے جا رہے ہيں، جس سے بي ٹي کے فوائد زائل ہوتے ہوئے دکھائي دے رہے ہيں-


متعلقہ تحريريں:

آپ کے پيروں کے ليۓ غيرمناسب جوتے ( حصّہ سوّم )