• صارفین کی تعداد :
  • 7183
  • 8/19/2014
  • تاريخ :

حساسيت: احتياطي تدابير، علاج

حساسیت: احتیاطی تدابیر، علاج

حساسيت اور اس کي علامات(حصہ اول)

اگر حساسيت ميں مبتلا ہوجانے کے بعد آپ کو يہ علم ہو جائے کہ آپ کو کن کن چيزوں کے ساتھ حساسيت ہے تو ان سے بچنے يا دوررہنے کي ہرممکن کوشش کريں اور اگر يہ يقين نہ ہو کہ کس چيز سے حساسيت ہے تو سب سے پہلے اپني غذا کا تجربہ کيجئے ،يہ پتہ لگانے کي ہر ممکن کوشش کريں کہ کس قسم کي غذا سے حساسيت ہوتي ہے اور پھر دوبارہ اس غذا کا استعمال نہ کريں… اگر جواب نفي ميں مبتلا ہے تو تمباکو، سگريٹ يا چولہے کے دھوئيں سے اپنے کو بچاليں- جانوروں کے (سمور)بالوں سے دور رہيں-

اپنے گھر کو صاف ستھرا رکھئے ، ہر ہفتہ اپنے گھر کے ہر کمرے اور ہر حصے کي صفائي کريں ، کمروں سے فرش ہٹا کر دن بھر دھوپ ميں رکھيں- کمروں کي کھڑکياں کھلي رکھيں تاکہ تازہ ہوا اور آفتاب کي شعاعيں کمروں ميں داخل ہوسکيں- اس سے کمرے کے کونوں، کھدروں ميں چھپے ہوئے کيڑے مکوڑے نابودہوجاتے ہيں-

اپنے تکيوں اور ''گدوں'' کے غلاف ايسے بنائيں کہ کيڑے مکوڑے اندر نہ جاسکيں-

پرانے فرنيچر اور صوفوں پر بيٹھنے يا سونے سے پرہيز کريں- يا تو انہيںگھر سے باہر کرديں يا انکي مرمت کرکے بھرائي کريں-

جھاڑوں پھيرتے وقت يا ''ويکيوْم''کلينر استعمال کرتے وقت منھ پر ماسک کا استعمال کريں-

اپنے گھر کي ديواروں کا کرم کش دوائيوں سے چھڑکا? کيا کريں- اسکے لئے پيشہ ورانہ افراد کي خدمات حاصل کريں-

گھر کے کسي حصے يا ديوار ميں دراڑ اور نمي ظاہر ہو تو پاني ميں بليچنگ پا?ڈر حل کرکے ايک محلول تيار کريں اور اسے ان جگہوں پر چھڑکيں-

ريزہ گل اور ماحولياتي آلودگي سے بچنے کے لئے دوپہر کے بعد گھر ميں رہنے کو ترجيح ديں-اس موسم ميں سفيد ے کے درختوں سے جو ''روئي کے گالے ''برستے رہتے ہيں و ہ بعض افراد ميں شديد حساسيت پيدا کرسکتے ہيں اسلئے باہر جاتے وقت ماسک کا استعمال کريں يا کم از کم رومال سے منھ اور ناک کو ڈھانپ ليں-

آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ لگاکر چلنے کو ترجيح ديں-

اس موسم ميں صبح کے وقت آدھ گھنٹے کے لئے کھڑکياں کھول کر پھر دوبارہ بند کريں تاکہ گرد وخاک ، ريزہ گل ، وغيرہ اندر داخل نہ ہوسکے-

 

علاج:

ابھي تک کسي بھي قسم کي حساسيت کا کوئي مکمل علاج نہيں ہے- ضد حساسيت دوائيوں سے صرف ناراحتي اور علائم ميں نماياں کمي محسوس کي جاسکتي ہے-حساسيت کا پتہ لگانے کے لئے جو آزمائشات انجام دئے جاتے ہيں وہ حد سے زيادہ مہنگے ہيں اور پھر ان کا کوئي دير پا يا حتمي نتيجہ بھي نہيں نکلتاہے اسلئے اکثر مريض ان آزمائشيات کو انجام دينے سے کتراتے ہيں اور معالجوں کي تجويز کردہ دوائيوں پر ہي اکتفاکرتے ہيں- حساسيت کا علاج صرف يہ ہے کہ ان چيزوں سے دور رہا جائے جن سے حساسيت پيدا ہونے کے امکانات ہوں يعني حساسيت ميں مبتلا مريض کو خود ہي اپنا معالج بننا پڑتاہے- چند اقسام کے ٹيکے ضرور دستياب ہيں ليکن ادارہ عالمي صحت نے ترقي پذير ممالک ميں ان ٹيکوں کا استعمال کرنے سے منع کياہے ، اس لئے في الحال حساسيت کا کوئي خاص اور حتمي علاج موجود نہيں ہے ،صرف علامات کا علاج ممکن ہے- بصورت ديگر حساسيت ايک لاعلاج بيماري ہے ، ہاں اسے قابو ميں رکھا جاسکتاہے تاکہ مريض آرام سے زندگي کے شب وروز گذار سکے- حال ہي ميں دنيائے طب سے وابستہ ماہرين نے کچھ متبادل علاج پر تحقيق شروع کي ہے ليکن ابھي تک کوئي خاطر خواہ نتيجہ برآمد نہيں ہوسکا ہے- ہاں يہ بات ضرور ہے کہ حساسيت ميں غذا اور ذہني دبا? کو بڑا دَخل ہوسکتاہے- اگر عام انسان ہر طرح سے اپني صحت کا خيال رکھے تو حساسيت کا مقابلہ کرنے ميں مدد مل سکتي ہے- ورزش اور دماغ کو سکون پہنچانے کي کوشش ، مدافعتي نظام کو بہتر بنانا عام صحت پر اچھا اثر ڈالتاہے-

اگر حساسيت کا حملہ اچانک(حاد)ہو تو فوري کسي ماہر معالج سے مشورہ کرنا ضروري ہے اور معالج کے مشورہ پر عمل کرکے اضطرابي حالت سے نمٹنے کے علاوہ آئندہ ہنگامي صورت حال سے بھي نمٹنے کے لئے تيار رہنا چاہئے-

اپني حساسيت کو پہچانئے اور اس بارے ميں معالج سے مفصل جانکاري حاصل کريں تاکہ آپ کو کسي قسم کي پريشاني کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اپني حساسيت کو نظر انداز نہ کريں اور نہ کسي وہم ڈر يا خوف ميں مبتلا ہو جائيں- آخرميں ايک بات کہوں گا کسي سے کہئے گا نہيں ''ڈاکٹر جب کسي بيماري کي تشخيص دينے ميں ناکام ہو جاتے ہيں تو اسے ''الرجي''سمجھ کر علاج شروع کرتے ہيں''- (ختم شد)


متعلقہ تحریریں:

موٹاپا

پوري نيند کتني ہي بيماريوں کا علاج