• صارفین کی تعداد :
  • 157
  • 1/2/2018 4:07:00 PM
  • تاريخ :

اسلامی بلاک بمقابلہ امریکی بلاک/ مختصر جائزہ

امریکہ نے اپنے حالیہ اقدام کے ذریعے اپنے چہرے کے اوپر سے نقاب اتار پھینک دیا ہے اور تاریخ اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں سب مسلمانوں کی نگاہیں پھر سے قدس اور سید حسن نصراللہ کی طرف پلٹ گئی ہیں۔

اسلامی بلاک بمقابلہ امریکی بلاک/ مختصر جائزہ


 امریکہ نے اپنے حالیہ اقدام کے ذریعے اپنے چہرے کے اوپر سے نقاب اتار پھینک دیا ہے اور تاریخ اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں سب مسلمانوں کی نگاہیں پھر سے قدس اور سید حسن نصراللہ کی طرف پلٹ گئی ہیں۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: امریکی صدر کے قدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے حکم نے چالیس سالوں کے عربی-فلسطینی-اسلامی پر امن مذاکرات کا خاتمہ کردیا، جس کا مقصد فلسطینیوں کو اپنے قانونی حقوق دلانا تھا۔

لیکن مذاکرات کے اپنے اصول اور شرائط تھیں جن میں سب سے اہم اصول یہ تھے کہ اسلحہ گرا کر مستقل اور بغیر اس کے کہ مغرب سے منسلک رہے اور عالمی سامراج کی اس خطے پر نظر، جیسے کہ ایرانی انقلاب کے بعد اس کے ساتھ ان کی دشمنیاں شروع ہوگئی، اور تب ہی سے فلسطینی مظلوموں کی حمایت کا سر عام اعلان کیا ہے۔

لیکن ان کے مذاکرات کے کچھ خاص اصول یہ ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے پراکسی وار میں شمولیت کی جائے، تبھی سے قدس شریف یہودی بننا شروع ہوگیا اور اس سے اسلامی نشانیاں مٹا دینے لگی۔ مصر اسرائیل کے سیاسی اور سیکیورٹی قبضے میں آگیا اور اس میں قومی حکومت کا منصوبہ شکست کھا گیا۔ دوسری جانب سعودی عرب دنیا کا لیڈر اور فیصلہ کرنے والا بن گیا۔

اسی زمانے سے عرب اور اسلامی دنیا میں امریکی اڈے بننے لگے اور اندرونی فتنے اور خانہ جنگیاں شروع ہوگئی اور اب ہم عراق سے شام اور مصر سے یمن تک امریکی-اسرائیلی-سعودی منصوبوں کے نتیجے دیکھ سکتے ہیں، جو کہ صحیح معنوں میں دہشتگردی ہے۔ وہ دہشتگردی جس نے امریکی پراکسی وارز کا سلسلہ افغانستان میں شروع کیا اور تب سے عالم اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹنے کا آغاز کردیا۔

یہ تاریخی صفحوں میں وہ وقت تھا جس میں ایک اسلامی مزاحمت نے جنم لی جس کی لیڈرشپ اور عنوان سید حسن نصر اللہ تھے۔ جنہوں نے اپنی درایت اور مضبوط ارادے اور عزم و خلوصِ نیت کے ذریعے میدان جیت لیا۔

اور سال 2000 میں ایرانی اور شامی فورسز کی مدد سے انہوں نے جنوبی لبنان کو جیت نصیب کردی اور اس کے بعد 2006 میں اسرائیلی جارحیت کو مات دے دی۔

اور اس کے بعد فلسطینی اسلامی مزاحمت نے بھی اس راہ میں قدم رکھ دی اور 2005 میں غزہ پٹی کو آزاد کرایا اور اسی مزاحمت نے امریکی اسرائیلی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں اپنا کردار بخوبی سے انجام دیا۔

اب امریکہ کے قدس کے حوالے سے اس فیصلے اور اقدام سے در حقیقت اس صلح کے مذاکرات کی باتیں کرنے کے پیچھے قدس کو یہودی بنانے کی چھپی ہوئی دشمنی اور خصومت برملا ہوگئی ہے۔

امریکہ نے اپنے اس اقدام کے ذریعے اپنے چہرے کے اوپر سے نقاب اتار پھینک دیا ہے اور تاریخ اب اس مرحلے میں داخل ہوگئی ہے جس میں سب مسلمانوں کی نگاہیں پھر سے قدس اور سید حسن نصراللہ کی طرف پلٹ گئی ہیں۔

بے شک یہ مرحلہ سید حسن نصراللہ کا مرحلہ ہے اور اب وہ ہی اس میدان کے سورما ہونگے۔

سید حسن نصراللہ کی لیڈرشپ میں پوری اسلامی مزاحمت اب خطے کی ایک عظیم سیاسی عوامی اور فوجی طاقت بن گئی ہے اور امریکہ کا یہ فیصلہ ان کی ذمہ داریاں بڑھنے کی نشاندہی کرتا ہے۔

فلسطینی غیرتمند اور قدس کے ساتھ وفادار اور اسلامی مزاحمت کے دوسرے جنگجوؤں کے پاس سید حسن نصراللہ کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تاکہ وہ ان کے لئے راستے کی نشاندہی کرکے انہیں بہترین راہ پر گامزن کردیں۔

اور وہ لمحہ کتنا حسین ہوگا جب ایک اچھا فیصلہ لیا جائیگا جس سے خطے اور شاید پوری دنیا کا چہرہ بدل جائے، ہم سب اسی لمحے کے منتظر رہیں گے جس میں سید حسن نصراللہ بہترین فیصلہ کرکے عالم اسلام کو پھر سے شاد و آباد کردینگے۔

منبع: تسنیم نیوز