• صارفین کی تعداد :
  • 4691
  • 1/14/2008
  • تاريخ :

صدر اسلام میں حافظ کی اصطلاح

 

قرآن مجید

عربی زبان میں لفظ حفظ دو معنی میں استعمال ھوتا ھے ۔

 

الف : نگھداری اور نگھبانی

ب: ذھن میں رکھنا، فراموشی کی ضد

 

قرآن میں یہ لفظ اور اس کے ھم جنس الفاظ صرف پھلے معنی میں استعمال ھوئے ھیں ۔

” حافظ “ اسم فاعل ھے اور علوم قرآن کی اصطلاح میں اس شخص کو حافظ کھتے ھیں کہ جس نے پورے قرآن کو تجوید و ترتیل اور علوم قرآن کی قابل قبول قراٴت سے استفادہ کرتے ھوئے حفظ کیا ھو ۔

اس طرح جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیثوں پر تسلط رکھتا ھے،انکے موارد اتفاق اور اختلاف کو جانتا ھے اور راویوں کے حالات اور ان کے طبقات سے کاملا ً آگاھی رکھتا ھے اس کو بھی حافظ کھتے ھیں۔ ان میں سے بعض نے احادیث تعدادبھی معین کی ھے کہ وہ شخص جس کو ایک لاکہ احادیث سند کے ساتھ حفظ ھوں اس پر ، لفظ حافظ صادق آنا چاھئے ۔

ابتدائے اسلام میں قرآن کو ذھن میں رکھنے والوں کو حافظ ھی کھتے تھے بلکہ ان کو دوسرے الفاظ جیسے جماع القرآن ، قراء القرآن ، حملة القرآن اور الماھرفی القرآن کے نام سے بھی یاد کرتے تھے۔ لفظ حافظ قرن اوّل یا نصف قرن دوم  ۳ھء کے بعد اس معنی میں استعمال ھوا ھے ۔

حضرت کے زمانہ میں اگر کوئی تھوڑا سا بھی قرآن حفظ کرلیتا تھا تو اس کو بھی حافظ کھتے تھے ۔

 

سب سے پھلے حافظ قرآن

آیات الٰھی کے حفظ کا سلسلہ نزول قرآن کے پھلے ھی دن سے شروع ھو گیا تھا۔ پیغمبر اسلام سب سے پھلے حافظ قرآن ھیں ۔ آپ قرآن کو حاصل کرنے اور اس کو حفظ کرنے کے لئے بھت زحمت اٹھاتے تھے۔ آپ فرشتۂ وحی کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جوکچھ سنا ھے اس کو بھول نہ جائیں ۔

مرحوم طبرسی ” لا تحرک بک لسانک تعجیل بہ ان علینا جمعہ و قراٴ نہ “ کی شان نزول میں ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شدید عشق کی بنا پر جوا ن کو دریافت قرآن اور حفظ قرآن سے تھا جس وقت فرشتہ ٴ وحی آیات کو ان کے لئے پڑھتا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے رھتے تھے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جو کچھ سنا ھے بھول نہ جائیں ۔ خدا نے ان کو اس کام سے روکا اور کھا کہ میں تمارے لئے اس کو جمع کردوں گا۔

مختلف روایات میں اس طرح ملتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ھر سال ماہ رمضان المبارک میں اس وقت تک جتنا قرآن نازل ھو چکاھوتا تھا اس کو جبرئیل امین کے ساتھ تکرار کرتے تھے۔

 

سب سے پھلے حافظ قرآن

آیات الٰھی کے حفظ کا سلسلہ نزول قرآن کے پھلے ھی دن سے شروع ھو گیا تھا۔ پیغمبر اسلام سب سے پھلے حافظ قرآن ھیں ۔ آپ قرآن کو حاصل کرنے اور اس کو حفظ کرنے کے لئے بھت زحمت اٹھاتے تھے۔ آپ فرشتۂ وحی کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جوکچھ سنا ھے اس کو بھول نہ جائیں ۔

مرحوم طبرسی ” لا تحرک بک لسانک تعجیل بہ ان علینا جمعہ و قراٴ نہ “ کی شان نزول میں ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ھیں: پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شدید عشق کی بنا پر جوا ن کو دریافت قرآن اور حفظ قرآن سے تھا جس وقت فرشتہ ٴ وحی آیات کو ان کے لئے پڑھتا تھا تو اس کے ساتھ ساتھ اپنی زبان کو حرکت دیتے رھتے تھے اورکلمات کو دھراتے رھتے تھے تاکہ جو کچھ سنا ھے بھول نہ جائیں ۔ خدا نے ان کو اس کام سے روکا اور کھا کہ میں تمارے لئے اس کو جمع کردوں گا۔

مختلف روایات میں اس طرح ملتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  ھر سال ماہ رمضان المبارک میں اس وقت تک جتنا قرآن نازل ھو چکاھوتا تھا اس کو جبرئیل امین کے ساتھ تکرار کرتے تھے۔