• صارفین کی تعداد :
  • 3844
  • 1/15/2008
  • تاريخ :

منطق الطیر

دشت گل

89۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی زبان کا اسی طرح علم دیا گیا ے جیسے سلیمان بن داؤد کو دیا گیا ہے اور ہم برو بحر کے تمام جانوروں کی زبان جانتے ہیں،( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 54 ، بصائر الدرجات 343 / 12 از زرارہ)۔

90۔ امام علی (ع) ! ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا جو خدا کا عظیم فضل ہے۔( اثبات الوصیہ ص 160 ، اختصاص ص 193 از محمد بن مسلم)۔

91۔ علی بن ابی حمزہ ! حضرت ابوالحسن کے غلاموں میں سے ایک شخص نے آکر حضرت سے درخواست کی کہ میرے ساتھ کھانا نوش فرمائیں؟

حضرت اٹھے اور اٹھ کر اس کے ساتھ گھر تک گئے، وہاں ایک تخت رکھا تھا، اس پر بیٹھ گئے، اس کے نیچے کبوتر کا ایک جوڑا تھا، نر نے مادہ سے کچھ باتیں کیں ، صاحب خانہ دان، کھانا لانے چلاگیا اور جب پلٹ کر آیا تو حضرت مسکرانے لگے، اس نے عرض کی حضور ہمیشہ خوش رہیں اس وقت ہنسنے کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا کہ یہ کبوتر کبوتری سے باتیں کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تو میری محبوبہ ہے اور مجھے کائنات میں اس شخص کے علاوہ تجھ سے زیادہ محبوب کوئی نہیں ہے ! اس نے کہا کیا حضور اس کی باتیں سمجھتے ہیں ! فرمایا بیشک ہمیں پرندوں کی گفتگو اور دنیا کی ہر شے کا علم دیا گیا ہے۔( بصائر الدرجات 346/ 25 ، مختصربصائر الدرجات ص 114 ، الخرائج والجرائح 2 ص 833 / 49 اختصاص ص 293)۔

92۔ علی بن اسباط ! میں حضرت ابوجعفر (ع) کے ساتھ کوفہ سے برآمد ہوا، آپ ایک خچر پر سوار تھے اور ایک بھیڑوں کے گلے کے قریب سے گذرے تو ایک بکری گلہ سے الگ ہوکر دوڑتی ہوئی آپ کے پاس شور مچاتی ہوئی آئی، آپ ٹھہر گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں اس کے چروا ہے کو بلاؤں میں نے اسے حاضر کردیا، آپ نے اس سے فرمایا کہ یہ بکری تمھاری شکایت کررہی ہے کہ اس میں دو آدمیوں کا حصّہ ہے اور تو اس پر ظلم کرکے سارا دودھ دوہ لیتاہے تو جب شام کو گھر واپس جائے گی تو مالک دیکھے گا کہ اس میں بالکل دودھ نہیں ہے اور اذیت کرے گا تو دیکھ خبردار آئندہ ایسا ظلم نہ کرنا ورنہ میں تیری بربادی کی بددعا کردوں گا؟

اس نے فوراً توحید و رسالت کی گواہی کے ساتھ امام کے وصی رسول ہونے کا کلمہ پڑھ لیا اور عرض کیا کہ حضور کو یہ علم کہاں سے ملاہے فرمایا ہم علم غیب و حکمت الہی کے خزانہ دار ہیں اور انبیاء کے وصی اور اللہ کے محترم بندے ہیں۔( الثاقب فی المناقب 522 / 255)

93۔ عبداللہ بن سعید ! مجھ سے محمد بن علی بن عمر التنونی نے بیان کیا کہ میں نے حضرت محمد بن علی (ع) کو ایک بیل سے بیات کرتے دیکھا جب وہ سرہلارہا تھا تو میں نے کہا کہ میں اس طرح نہ مانوں گا جب تک اسے یہ حکم نہ دیں کہ وہ آپ سے کلام کرے؟

آپ نے فرمایا کہ ہمیں پرندوں کی گفتگو اور ہر شے کا علم دیا گیا ہے، اس کے بعد بیل کو حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کہے اس نے فوراً کہہ دیا اور آپ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔( دلائل الامامۃ 40 / 356)۔