• صارفین کی تعداد :
  • 4539
  • 1/23/2008
  • تاريخ :

صفین سے واپسی پرحضرت علی (ع) کے خطبہ کا ایک حصہ

 

گل

جس میں بعثت پیغمبر(ص) کے وقت لوگوں کے حالات‘ آل رسول(ص) کے اوصاف اور دوسرے افراد کے کیفیات کاذکر کیا گیا ہے۔

 

میں پروردگار کی حمد کرتا ہوں اس کی نعمتوں کی تکمیل کے لئے اور اس کی عزت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے۔ میں اس کی نا فرمانی تے تحفظ چاہتا ہوں اور اس سے مدد مانگتا ہوں کہ میں اسی کی کفایت و کفالت کا محتاج ہو۔وہ جسے ہدایت دیدے وہ گمراہ نہیں ہو سکتا ہے اور جس کا وہ دشمن ہو جائے اسے کہیں پناہ نہیں مل سکتی ہے۔

جس کے لئے وہ کافی ہو جائے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے۔اس حمد کا پلہ ہر باوزن شے سے گراں تر ہے اور یہ سرمایہ ہرخزانہ سے زیادہ قیمتی ہے۔

 

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک (۱۰)ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور یہ وہ گواہی ہے جس کے اخلاص کا امتحان ہو چکا ہے اور جس کا نچوڑ عقیدہ کا جزء بن چکا ہے۔میں اس گواہی سے تا حیات وابستہ رہوں گا اور اسی کو روز قیامت کے ہولناک مراحل کے لئے ذخیرہ بناؤں گا۔یہی ایمان کی مستحکم بنیاد ہے اوریہی نیکیوں کا آغاز ہے اور اسی میں رحمان کی مرضیاور شیطان کی تباہی کا راز مضمر ہے۔

 

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔انہیں پروردگار نے مشہور دین‘ ماثور نشانی‘ روشن کتاب‘ ضیاء پاش نور‘ چمکدار روشنی اور واضح امر کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ شبہات زائل ہو جائیں اور دلائل کے ذریعہ حجت تمام کی جاسکے‘ آیات کے ذریعہ ہو شیار بنایا جا سکے اورمثالوں کے ذریعہ ڈرایا جا سکے۔

 

یہ بعثت اس وقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمان دین ٹوٹ چکی تھی۔یقین کے ستون ہل گئے تھے۔اصول میں شدید اختلاف تھا اور امور میں سخت انتشار۔مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہوگئے تھے۔ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسر عام۔رحمان کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت‘ ایمان یکسر نظر انداز ہوگیا تھا‘ اس کے ستون گر گئے تھے اورآثار ناقابل شناخت ہوگئے تھے‘ راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں۔لوگ شیطان کی اطاعت میں اس کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوں نے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا اور خود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہوگئے تھے۔یہ لوگ فتنوں میں حیران و سر گرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے۔ پروردگار نے انہیں اس گھر ( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسائے۔جن کی نیند بیداری تھی اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سر زمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا(۱۱)

 

آل(۱۲) رسول اکرم

          یہ لوگ راز الٰہی کی منزل اورامر دین کا ملجاء و ماویٰ ہیں۔یہی علم خداکے مرکز اورحکم خداکی پناہ گاہ ہیں۔کتابوں نے یہیں پناہ لی ہے اور دین کے یہی کوہ گراں ہیں۔انہیں کے ذریعہ پرورگار نے دین کی پشت کی کجی سیدھی کی ہے اور انہیں کیذریعہ اس کے جوڑ بند کے رعشہ کا علاج کیا ہے ۔(۱۳)

 

ایک دوسری قوم

          ان لوگوں نے فجور کا بیج بویا ہے اور اسے غرور کے پانی سے سینچا ہے اور نتیجہ میں ہلاکت کو کاٹاہے۔یادرکھو کہ آل محمد پر اس امت میں کس کا قیاس نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ان لوگوں کو ان کے بر قرار دیا جا سکتا ہے جن پر ہمیشہ ان کی نعمتوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

 

آل محمد دین کی اساس اوریقین کا ستون ہیں۔ ان سے آگے بڑھ جانے والا پلٹ کرانہیں کی طف آتا ہے اور پیچھے رہ جانے والا بھی انہیں سے آکر ملتا ہے۔ان کے پاس حق و لایت کے خصوصیات ہیں اور انہیں کے درمیان پیغمبر کی وصیت اور ان کی وراثت ہے۔اب جب کہ حق اپنے اہل کے پاس واپس آگیا ہے اور اپنی منزل کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔