• صارفین کی تعداد :
  • 3800
  • 3/28/2009
  • تاريخ :

سورہ یوسف  ۔ع ۔ (34) ویں  آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

پیغمبر رحمت اور ان کی ذریت طاہرہ پر درود و سلام کے ساتھ ، الہی تعلیمات پر مشتمل پیام قرآن لے کر حاضر ہیں آسان و عام فہم تفسیر کے اس سلسلہ وار پروگرام میں آج ہم اپنی گفتگو سورۂ یوسف کی 34 ویں آيت کی تلاوت سے شروع کررہے ہیں ارشاد ہوتا ہے:

 " فاستجاب لہ ربّہ فصرف عنہ کیدہنّ انّہ ہو السّمیع العلیم "


 [ یوسف (ع) کے ] پروردگار نے ان کی درخواست کو مستجاب قراردیا اور ( مصر کی ) ان عورتوں کے حیلے کو خود ان کی طرف پلٹا دیا یقینا وہ بڑا ہی سننے اور جاننے والا ہے ۔

عزیزان محترم ! گفتگو چل رہی تھی کہ جب حضرت یوسف (ع) کو زلیخا نے دھمکی سنائی کہ اگر انہوں نے زلیخا کی بات نہ مانی تو جیل میں ڈال دے گي اور ذلیل و رسوا کرے گی تو حضرت یوسف (ع) نے قیدخانے میں رہنا ، زلیخا کی گندی خواہش کو پورا کرنے پر ترجیح دیا اور اس سلسلے میں اپنے پروردگار سے لطف کی درخواست کی اب اس آیت میں خدا کی طرف سے اعلان ہے کہ اس نے یوسف علیہ السلام کی دعا مستجاب کرلی اور خواتین کے مکر و فریب سے ان کو نجات عطا کردی ۔ اس منزل میں ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ یوسف (ع) کا قید میں ڈالا جانا زلیخا کی ضد پر اسی کے حکم سے انجام پایا ہے جبکہ آیت کہتی ہے کہ اللہ نے یوسف(ع) کی درخواست قبول کرلی اور یوسف (ع) قید میں ڈال دئے گئے جس سے صاف پتہ چلتا ہے زلیخا اگرچہ اپنی ہوس پوری نہ ہونے کے باعث یوسف (ع) کو سزا کے طور پر قید کردینے کی طالب تھی اور اس نے یہ کام کرڈالا لیکن قرآن بتانا چاہتا ہے اگر خدا سے خود یوسف (ع) نے دعا نہ کی ہوتی اور خدا نے اس دعا کو قبول نہ کیا ہوتا اور اللہ خود نہ چاہتا تو یوسف (ع) کو زلیخا قید نہیں کرسکتی تھی ، خدا نے مکاروں کا مکر خود ان کی طرف پلٹانے کے لئے ان کی خواہش پوری کردی اور اس حکایت میں مؤمنین کے لئے ایک عظیم سبق ہے کہ دشمنوں کی سازشوں اور حیلوں حوالوں سے پریشان نہ ہوا کریں جب تک خدا نہ چاہے کچھ نہیں ہوسکتا خدا کی رضا کو سامنے رکھنا اور توکل و تعین سے کام لینا مؤمن کا فریضہ ہے خدا اگر چاہے تو دشمنوں کے منصوبے خاک میں ملا سکتا اور مخالفین کی خواہشیں نقش بر آب کرسکتا ہے ۔

                        اردو ریڈیو تہران