• صارفین کی تعداد :
  • 2142
  • 6/26/2011
  • تاريخ :

 میری عبا تو مجھے واپس دے دو

عبا

فتح طائف کے بعد بہت سے غنائم حاصل ہوئے جنہیں حضور اکرم (ص) نے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا۔ بہت سے راسخ اور مستحکم ایمان رکھنے والے افراد تو کنارے رہے لیکن بعد تازہ مسلمان اور مکہ و طائف کے اطراف سے تعلق رکھنے والے افراد پیغمبر اعظم (ص) کے نزدیک جمع ہوگئے، مال غنیمت کا مطالبہ کرنے لگے جس سے آپ (ص) کو تکلیف پہنچی۔ حضور (ص) عطا کرتے وہ لے لیتے اورپھر مطالبہ کرنے لگتے! حد تو اس وقت ہوگئی جب حضور (ص) کی عبا ان نئے مسلماں اور بے ادب عربوں کے ہاتھوں میں آگئی! لیکن عزت و اقتدار کی بلندی پر ہونے کے باوجود آپ (ص) نے شفقت و مہربانی کا دامن نہ چھوڑا اور انتہائی خوش اخلاقی و نرمی کے ساتھ فرمایا:""ایھا الناس ردّوا علیّ بردی۔"" (بحار الانوار، ج16، ص226) ""اے لوگو! میری عبا تو مجھے واپس دے دو۔"" لوگوں کے ساتھ رسول اکرم (ص) کا طرز معاشرت ایسا تھا۔

ولي امر مسلمین حضرت آیت اللہ سید علي خامنہ اي کے خطاب سے اقتباس

(خطبات نماز جمعہ، تہران)


متعلقہ تحریریں:

تجھے اے عزم راسخ، قلب محکم ہو سلام اپنا

زندگی کے درس اور اخلاق کو فطرت سے سیکھیں (حصّہ ثانی)

زندگی کے درس اور اخلاق کو فطرت سے سیکھیں

تم سب اس سے بہتر ہو

میری نظروں سے گر گیا تو بھی