• صارفین کی تعداد :
  • 2913
  • 4/5/2010
  • تاريخ :

سورۂ یوسف ( ع ) کی 62 ویں آیت کی تفسیر

بسم الله الرحمن الرحیم

" وقال لفتیانہ اجعلوا بضاعتہم فی رحالہم لعلّہم یعر فونہا اذا انقلبوا الی اہلہم لعلّہم یرجعون "

 [ یوسف (ع) نے ] اپنے کارندوں سے کہا : ( ان کے بھائیوں نے اناج کے بدلے ) جو قیمت ادا کی ہے ان کے بوجھ (یا گٹھر) میں رکھ دو ، شاید وہ اپنے اہل خاندان میں واپس پہنچکر ان کو پہچان لیں ( کہ یہ تو وہی سکّے ہیں جو انہوں نے ادا کئے تھے ) اور پھر وہ ( یہاں ) واپس آئیں ۔

عزیزان محترم ! حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے باپ اور بھائی کے دیکھنے کا بڑا اشتیاق تھا مگر جناب یعقوب (ع) اپنے بڑھاپے کے سبب اتنا لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے اور بھائی ،دوسرے بھائیوں کے ساتھ آسکتے تھے اسی لئے انہوں نے زبانی تاکید کے ساتھ کہ اگر آئندہ بنیامین کو ساتھ نہ لائے تو ان کے حصے کا غلہ نہیں ملے گا، دوسری ترکیبیں بھی کیں کہ ان کے بھائی بنیامین کو یہ لوگ اپنے ساتھ ضرور لائیں اور سفر کی مشکلات کے پیش نظر دوبارہ آنے کا خيال دل سے نکال نہ دیں ۔چنانچہ ان پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لئے جناب یوسف علیہ السلام نے جو سکے کی تھیلی ان کے بھائیوں نے اناج کے سلسلے میں دی تھی اپنے کارندوں سے کہکر اناج کے گٹھر میں چپکے سے رکھوادی کہ گھر پہنچکر جب یہ لوگ اپنا گٹھر کھولیں گے اور اس میں ان کو سکے کی تھیلی ملے گی تو اپنی تھیلی کو پہچان لیں گے اور سمجھیں گے کہ بھولے سے یہ تھیلی واپس آگئی ہے اور ان کو واپس کرنے وہ دوبارہ مصر واپس آئیں گے ظاہر ہے حضرت یوسف (ع) مصر کے خزانے کے امین تھے اور انہوں نے یقینا" اپنے جیب سے اناج کی قیمت ادا کردی ہوگی لہذا ان کا یہ عمل قرآن نے خیانت قرار نہیں دیا ہے ورنہ قرآن بیت المال میں بیجا تصرف کو ہرگز نظر انداز نہ کرتا

اردو ریڈیو تہران


متعلقہ تحریریں:

سورہ یوسف ۔ع ۔ (44,45) ویں آیات کی تفسیر

سورہ یوسف ۔ع ۔ (43) ویں آیت کی تفسیر