سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

21
اگر وصیت کرنے والا مرجائے تو وصی خود کام سے کنارا کشی اختیار کرکے کسی دوسرے کو میت کے کام انجام دینے کے لئے معین نہیں کر سکتا ۔ البتہ اگر اسے معلوم ہو کہ میت کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وصی خود اس کام کو انجام دے بلکہ اس کا مقصد صرف کام کا انجام پانا تھا تو پھر کسی دوسرے کو اپنی طرف سے وکیل کرسکتا ہے ۔
22
اگر کوئی شخص دو افراد کو وصی قرار دے تو اگر ان میں سے ایک مرجائے یا دیوانہ یا کافر ہوجائے تو حاکم شریعت اس کی جگہ کسی اور آدمی کو معین کرے گا اور اگر دونوں مرجائیں یا دیوانے اور کافر ہوجائیں تو حاکم شریعت دو آدمیوں کوان کی جگہ معین کرے گا۔ البتہ اگر ایک آدمی بھی وصیت پر عمل کر سکتا ہو تو دو آدمیوں کو معین کرنا ضروری نہیں ہے۔
23
اگر وصی اکیلا میت کے کام انجام نہیں دے سکتا تو حاکم شریعت اس کی مدد کے لئے کسی دوسرے شخص کو معین کرے گا۔
24
اگر میت کا کچھ مال وصی کے ہاتھ میں تلف ہوجائے تو اگر اس نے اس کی حفاظت میں کوتاہی یا تجاوز کیا ہو مثلاً میت نے وصیت کی تھی کہ اتنی مقدار مال فلاں شہر کے فقراء کو دیا جائے اور وہ اس مال کو کسی اور شہر میں لے گیا اور وہ مال راستے میں تلف ہوجائے تو وہ اس کا ضامن ہے اور اگر کوتاہی یا زیادتی نہ کی ہو تو پھر ضامن نہیں ہوگا۔
25
جب انسان کسی کو وصی قرار دے اور کہے کہ اگر یہ شخص مرجائے تو فلاں شخص وصی ہے تو پہلے وصی کے مرنے کے بعد دوسر ے وصی کو میت کے کام انجام دینے چاہئیں۔
26
جو حج کہ میت پر واجب ہے اور وہ قرض اور دوسرے حقوق جو مثل خمس و زکواۃ و مظالم کہ جن کا ادا کرنا بھی واجب ہے وہ میت کے اصل ترکہ سے دئیے جائیں اگرچہ میت ان کے لئے وصیت بھی نہ کر گیا ہو۔
27
اگر میت کا مال قرض، حج واجب اور ان حقوق سے جو مثل خمس زکواۃ اور مظالم کے اس پر واجب ہیں۔ زیادہ ہو تو اگر وہ وصیت کرجائے کہ اس کے مال کا تیسرا حصے کا کچھ حصہ فلاں مصرف میں صرف کیاجائے تو اس کی وصیت پر عمل کرنا چاہئیے اور اگر وصیت نہ کرجائے تو جو باقی رہ گیا ہے وہ ورثاء کا مال ہے۔
28
جو مصرف میت نے معین کیا ہے اگر وہ مال کے تیسرے حصہ سے زیادہ ہو تو اس کی وصیت تیسرے حصے سے زیادتی کے متعلق اس وقت صحیح ہوگی جب ورثاء کوئی بات کریں یا ایسا کام کریں کہ جس سے معلوم ہو کہ وہ وصیت پر عمل کرنے کی اجازت دے رہے ہیں اور صرف ان کا راضی ہونا کافی نہیں اور اگر اس کے مرنے سے کچھ مدت بعد بھی اجازت دیدیں تو بھی صحیح ہے۔
29
جو مصرف میت نے معین کیا ہے اگر مال کے تیسرے حصے سے زیادہ ہے اور اس کے مرنے سے پہلے ورثاء نے اجازت دے دی ہے کہ وصیت پر عمل ہوجائے تو اس کے مرنے کے بعد وہ اپنی اجازت سے نہیں پھر سکتے۔
30
اگر وصیت کرے کہ اس کے ترکے کے تیسرے حصے سے خمس، زکواۃ اور اس کے دوسرے قرض ادا کئے جائیں اور اسکے نماز روزے کے لئے اجیر بنایا جائے اور مستحب کام بھی مثلاً فقراء کو کھانا کھلانا، انجام دیا جائے تو اگر وصیت بالترتیب تھی تو جو مقدم ہے اگرچہ وہ مستحب ہو اس پر عمل کیا جائے۔ اب اگر ترکے کے تیسرے حصے سے کچھ بچ جائے تو اگر وہ نماز و روزہ کی طرح واجب بدنی ہوں تو ان پر صرف کیا جائے اور اگر اس سے بھی بچ جائے تو واجب مالی پر صرف کریں اور اگر ترکے کے تیسرے حصے سے زیادہ نہ ہو تو واجب مالی اصل مال سے اداکریں۔ البتہ اگر تیسرا حصہ صرف مستحب عمل کے برابر ہو تو واجب بدنی ورثاء کی اجازت سے بجالائیں اور واجب مالی اصل ترکہ سے انجام دیں اور اگر اس کی وصیت ترتیب وار نہ ہو تو تیسرا حصہ نسبت کے ساتھ تین وصیتوں میں تقسیم کیا جائے اور اگر کم ہو تو واجب مال کی کمی اصل مال سے ورثاء کی اجازت کے بغیر اور واجب بدنی اور مستحب عمل کی کمی ورثاء کی اجازت سے پوری کی جائے۔