سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

11
اگر میت کا وارث ایک ماموں یا ایک خالہ اور چچا و پھوپھی مادری اور چچا و پھوپی پدری مادری یا صرف پدری ہو تو مال تین حصوں میں تقسیم ہوگا۔ ایک حصہ ماموں یا خالہ لے جائیں گے اور بقیہ دو حصوں کو تین حصوں میں ممنقسم کیاجائے گا۔ اس میں سے ایک حصہ مادری چچا و پھوپھی کو دیں جو کہ احتیاط واجب کی بنا پر آپس میں مصالحت کریں گے۔ اور دو باقی حصے پدری مادری یا صرف پدری چچا و پھوپھی کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا۔ اس بنا پر مال نو حصوں میں تقسیم ہو اس میں سے تین حصے ماموں یا خالہ کے ہیں اور دو حصے مادری چچا و پھوپھی کے اور چار حصے پدری مادری یا صرف پدری چچا کے۔
12
اگر میت کے وارث چند ماموں اور چند خالائیں ہوں کہ جو سب پدری مادری یا صرف پدری یا صرف مادری ہوں اور اس کے چچا و پھوپھی بھی ہوں تو مال کے تین حصے ہوں گے ۔ دو حصے تو جس طرح گزشتہ مسئلہ میں بیان ہوچکا ہے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے اور ایک حصہ ماموں اور خالائیں آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیں گے۔
13
اگر میت کے وارث ماموں یا خالہ مادری اور کئی ماموں اور خالہ پدری مادری یا صرف پدری ہوں اور چچا و پھوپھی بھی ہو تو مال کے تین حصے ہوں گے اور ان میں سے دو حصے اس طریقہ پر جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے چچا اور پھوپھی آپس میں تقسیم کریں گے پس اگر میت کا ایک ماموں یا ایک مادری خالہ ہے تو ان کے بچے ہوئے ایک حصہ کو چھ حصوں میں تقسیم کریں گے۔ ان کا ایک حصہ ماموں یا خالہ مادری کو دیں گے اور باقی پانچ حصوں کو ماموں اور خالہ پدری و مادری کو دیں گے اور وہ برابر تقسیم کرلیں گے اور اگر چند مادری ماموں یا چند مادری خالائیں ہوں یا مادری ماموں بھی ہو اور مادری خالہ بھی تو وہ اس ایک حصہ کو تین حصوں میں بانٹ لیں گے ان میں سے ایک حصہ مادری ماموں خالائیں برابر تقسیم کرلیں گے اور بقیہ مادری پدری یا صرف پدری ماموں خالہ کو ملے گا کہ جو اسے برابر تقسیم کریں گے۔
14
اگر میت کے چچا پھوپھی اور ماموں اور خالہ نہ ہوں تو جتنا حصہ چچا اور پھوپھی کو ملنا تھا وہ ان کی اولاد کو ملے گا اور جتنا حصہ ماموں اور خالہ کو ملنا چاہیے وہ ان کی اولاد کو ملے گا۔
15
اگر میت کا وارث اس کے باپ کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ ہوں اور اس کی ماں کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ بھی ہوں تو مال کے تین حصے ہوجائیں گے ۔ ایک حصہ اس کی ماں کے چچا پھوپھی اور ماموں خالہ کو بطور مساوی ملے گا۔ البتہ احتیاط واجب یہ ہے کہ میت کی ماں کے مادری چچا پھوپھی آپس میں مصالحت کریں اور دو باقی حصے تین حصوں میں بٹ جائیں گے۔ ان میں سے ایک میت کے باپ کے ماموں خالہ لے کر آپس میں برابر تقسیم کرلیں گے۔ اور بقیہ دو حصے میت کے باپ کے چچا اور پھوپھی کو ملیں گے اور چچا پھوپھی کے دو برابر لے گا۔