سرچ
    سرچ کا طریقہ
    مرجع کا نام

احكام تقليد

احكام طہارت

احكام نماز

احكام نماز

روزے کے احکام

روزے کے احکام

احكام زکوٰۃ

احکام حج

خريد و فروخت کے احکام

احکام شرکت

احکام صلح

اجارہ (کرايہ ) کے احکام

احکام جعالہ

احکام مزارعہ

مساقات (آبياري ) کے احکام

احکام وکالت

قرض کے احکام

رہن کے احکام

ضامن بننے کے احکام

کفالت کے احکام

وديعت (امانت) کے احکام

عاريتاً دينے کے احکام

نکاح (شادي بياہ) کے احکام

طلاق کے احکام

غصب کے احکام

غصب کے احکام

جو مال انسان پالے اس کے احکام

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

جانوروں کے ذبح اور شکار کرنے...

کھانے پينے کي چيزوں کے احکام

نذر اور عہد کے احکام

قسم کھانے کے احکام

وقف کے احکام

وصيت کے احکام

ميراث کے احکام

احکام امر بالمعروف اور نہي عن...

دفاع کے مسائل و احکام

خاتمہ کے احکام

بعض مسائل جو اس زمانے ميں...

امام خميني کي خدمت ميں چند...

وہ اشخاص جو اپنے مال ميں خود...

حوالہ (ڈرافٹ) دينے کے احکام

11
جمعہ کے خطبوں کو زوال سے اتنے پہلے شروع کرنا جائز ہے کہ خطبوں کے ختم ہوتے ہوتے زوال کا وقت ہوجائے لیکن احوط یہ ہے کہ زوال کے وقت خطبے پڑھے جائیں۔
12
دونوں خطبوں کا نماز جمعہ سے پہلے ہونا واجب ہے۔ پس اگر کسی نے خطبوں سے پہلے نماز پڑھ لی تو باطل ہے اور خطبوں کے بعد اگر وقت باقی ہو تو دوبارہ نماز پڑھنا واجب ہے۔ ہاں اگر بھولے سے یا معلوم نہ ہونے کی وجہ سے نماز پڑھ لے توبظاہر خطبوں کے بعد صرف نماز کا پڑھ لینا کافی ہے (خطبوں کا پھر سے پڑھنا واجب نہیں ہے) ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نماز کا دوبارہ پڑھنا بھی واجب نہیں تو اس کے لئے وجہ اول دلیل ہے۔
13
خطیب کا کھڑا ہونا خطبہ پڑھنے کے وقت واجب ہے نیز خطیب اور امام کا ایک ہی ہونا ضروری ہے اگر خطیب کھڑا نہیں ہو سکتا تو جو شخص کھڑے ہو کر خطبہ پڑھے وہی نماز بھی پڑھائے اور اگر عاجز خطیب کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے تو نماز ظہر پڑھنی چاہیے ہاں اگر جمعہ واجب عینی ہو تو عاجز خطیب بیٹھ کر خطبہ پڑھے لیکن اس صورت میں جمعہ کے بعد ظہر کا پڑھنا احوط ہے۔ دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھنا بھی واجب ہے۔
14
اگر اقویٰ نہ بھی ہو تب بھی اتنی زور سے خطبہ پڑھنا احوط ہے کہ جسے کم ازکم چار آدمی سن لیں۔ بلکہ بظاہر آہستہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس میں کوئی اشکال نہیں کہ وعظ و نصیحت آہستہ جائز نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اتنی زور سے خطبہ پڑھے کہ تمام حاضرین سن لیں۔ بلکہ ایسا کرنا احوط ہے ورنہ وعظ و نصیحت کے لئے اور ضروری مسائل بتانے کے لئے بڑے مجمع میں لاوڈ اسپیکر استعمال کرے۔
15
احوط بلکہ اوجہ یہ ہے کہ خطبہ کو کان لگا کر سننا واجب ہے اسی طرح خطبہ کے درمیان باتیں نہ کرنا احوط ہے اگرچہ اقویٰ یہ ہے کہ گفتگو مکروہ ہے ۔ ہاں اگر گفتگو خطبہ کے سننے میں حارج ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے خطبہ کا فائدہ حاصل نہ ہوتو گفتگو نہ کرنی چاہیے۔ سننے والوں کا امام کی طرف خطبہ پڑھتے وقت رخ رکھنا اور نماز میں جتنی توجہ جائز ہے اس سے زیادہ خطبہ میںبھی ادھر ادھر ملتفت نہ ہونا احوط ہے، خطیب کو خطبہ دیتے وقت حدث وخبث سے پاک رہنا۔ اسی طرح سننے والوں کا بھی با طہارت ہونا احوط و اولیٰ ہے نیز یہ بھی احوط و اولیٰ ہے کہ خطیب خطبہ کے دوران خطابت سے مربوط باتوں کے علاوہ دوسری گفتگو نہ کرے ۔ ہاں خطبوں کے بعد نماز شروع کرنے تک گفتگو کرسکتا ہے۔ خطیب کو بلیغ ہونا چاہیے۔ یعنی موقع و محل کی مناسبت سے خطابت کرنے کا اہل ہو اور وہ ایسے جملے استعمال کرے جو فصیح ہوں۔ ان میں سخت اور مشکل عبارت نہ ہو۔ دنیا میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس سے واقف ہو ۔ خصوصاً اپنے اطراف کے حالات سے باخبر ہو۔ اسلام اور مسلمانوں کی مصلحتوں کو پہچاننے والا ہو۔ بہادر ہو۔ اللہ کے بارے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرتا ہو زمان و مکان کے لحاظ سے اظہار حق اور ابطال باطل کرنے والا ہو جن چیزوں سے تاثیر کلام پڑھتی ہے ان کا پابند ہو۔ مثلاً اوقات نماز کا پابند ہو۔ اس میں اولیائ و صالحین کے اوصاف پائے جاتے ہوں۔ اس کے قول و فعل میں مطابقت ہو جن چیزوں سے خود اس کی یا اس کے کلام کی اہمیت گھٹتی ہو ان سے پرہیز کرنے والا ہو۔ یہاں تک کہ زیادہ مزاح کرنے والا، باتونی اور لایعنی کلام کرنے والا نہ ہو اور یہ سب باتیں دنیا اور ریاست دنیا کے لئے نہ ہوں۔ کیونکہ ہر غلطی اور اشتباہ کا سبب اور سر یہی حب دنیا ہے۔ بلکہ خالصتاً لوجہ اللہ ہو تاکہ اس کا کلام لوگوں کے دلوں میں اثر انداز ہو اور مستحب ہے کہ گرمی، سردی ہر زمانہ میں وہ عمامہ باندھے ، یمنی یا عدنی ردا اوڑھے پاک و پاکیزہ لباس پہنے اور خوشبو لگائے ۔ سکون و وقار سے رہے۔ منبر پر جاکر حاضرین کو سلام کرے، اس کا رخ لوگوں کی طرف ہو اور لوگوں کا رخ اس کی طرف ہو ۔ خطبہ پڑھتے وقت کمان، عصا، تلوار و غیرہ پر ٹیک لگائے ہو۔ خطبہ سے پہلے موذن کے اذان کہتے وقت منبر پر بیٹھا رہے۔
16
تین میل سے کم میں ہونے والی دو نماز جمعہ اگر ایک ساتھ شروع ہوں تو دونوں باطل ہیں۔ ورنہ جو پہلے شروع ہوئی ہو وہ صحیح ہے چاہے صرف تکبیرۃ الاحرام پہلے کہی گئی ہو اور چاہے نمازی جانتے ہوں کہ دوسری نماز بعد میں ہوئی ہو یا نہ جانتے ہوں۔ اسی طرح بعد والی نماز باطل ہے اس کے نمازیوں کو معلوم ہو کہ اس سے پہلے نماز جمعہ ہوئی ہے یا نہ معلوم ہو۔ نماز کی صحت کا دارو مدار نماز ہی کے تقدم و تاخر پر ہے۔ خطبہ کے آگے پیچھے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اگر ایک جماعت کا خطبہ پہلے شروع ہوا اور دوسری کی نماز پہلے شروع ہوئی تو دوسری نماز صحیح رہے گی، پہلی باطل ہوجائے گی۔
17
جس جگہ نماز جمعہ پڑھنا چاہیں وہاں احتیاطاً پہلے یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ حد شرعی کے اندر اسی وقت یا اس سے پہلے کوئی نماز جمعہ تو نہیں ہوتی اگرچہ شبہ یہ ہے کہ جب تک دوسری نماز جمعہ کے ایک ساتھ ہونے یا مقدم ہونے کا علم نہ ہوجائے اس وقت تک نماز جمعہ کا منعقد کرنا صحیح ہے اور جمعہ بھی صحیح رہے گا بلکہ بظاہر یہ جانتے ہوئے کہ نماز جمعہ ہوتی ہے، دوسری نماز جمعہ منعقد کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ پہلے جمعہ کا اسی وقت میں ہونا یا ا س سے پہلے ہونا مشکوک ہو۔
18
نماز جمعہ پڑھ لینے کے بعد اگر دوسری نماز جمعہ ہونے کا علم ہو اور دونوں جماعتوں کے بارے میں آگے پیچھے ہونے کا احتمال ہو تو بظاہر دونوں پر نہ جمعہ کا اعادہ واجب ہے نہ ظہر کا ۔ اگرچہ احوط یہی ہے کہ اعادہ واجب ہے ۔ اب اگر کوئی تیسری جماعت جو ان دونوں جمعوں میں شریک نہیں ہوئی ہے، تیسرا جمعہ پڑھنا چاہتی ہے تو جب تک اسے دونوں جمعوں کے باطل ہوجانے کا علم نہ ہوجائے، اس وقت تک تیسرا جمعہ نہیں پڑھا جا سکتا۔ بلکہ اگر ایک نماز کے صحیح ہونے کا احتمال بھی ہو تب بھی تیسری جماعت کا برپا ہونا جائز نہیں۔